Ask Ghamidi

A Community Driven Discussion Portal
To Ask, Answer, Share And Learn

Forums Forums Sources of Islam Magic In General And In Entertainment

Tagged: , , ,

  • Magic In General And In Entertainment

    Posted by Haseeb Faisal on April 27, 2021 at 1:28 pm

    Asalamoalaikum,

    Another question that I’ve had in mind for some time is whether entertainment featuring magic is prohibited? I’ve seen some list reading Harry Potter to be haram, as well as video games and television series featuring magic to be haram. Some of these television series are catered towards children, so I have a hard time understanding the harm in there being magic. In the event this entertainment is haram, can someone explain why? Additionally, is there a video where Javed Ghamidi Sabh comments on why or why not magic is haram – especially in light of Surah Araf, verse 33?

    JazakAllah

    Nadeem Minhas replied 3 years ago 6 Members · 8 Replies
  • 8 Replies
  • Magic In General And In Entertainment

    Nadeem Minhas updated 3 years ago 6 Members · 8 Replies
  • Haseeb Faisal

    Member April 27, 2021 at 2:33 pm

    I’d also appreciate if some of the ahadith mentioning magic as haram are commented upon! Thank you!

  • Umer

    Moderator April 27, 2021 at 2:44 pm

    It is the use of Magic which causes harm to other people and/or involves certain polytheistic acts in order to make that magic effective. Such magic should be considered as Haram as per Quran (7:33). However, there is no basis for considering movies and novels like harry potter Haram just because there is fake magic being shown in such movies/novels. The debate of Hurmat can arise in such movies/novels if they contain any immoral activity as mentioned in Quran (7:33). All such Ahadith are to be seen in the same context as provided by Quran.

    Please also refer to the following video from 31:42 to 35:35

    https://youtu.be/ugIjFhS8MBM?t=1902

  • Nadeem Minhas

    Member April 27, 2021 at 5:02 pm

    To my knwledge Magic tricks, stories and movies about magic are not haram. Evil, black magic or voodoo is haram that is used to harm people or requires evil acts or devil’s support.

    According to Quran, A non-evil form of magic was actually taught to people by two angels as a test, but people used it to harm people and break marriages.

    From this I would assume that if someone knew non-evil version of magic and if it was used for the benefit of people, it won’t be haram.

    • Afia Khan

      Member April 28, 2021 at 8:32 am

      Harut and Marut actually taught the cure of the magic. Not the magic.

      Al-Baqarah – البَقَرة

      وَلَمَّا جَاءَهُمْ رَسُولٌ مِّنْ عِندِ اللَّـهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ نَبَذَ فَرِيقٌ مِّنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ كِتَابَ اللَّـهِ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ كَأَنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَوَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ عَلَىٰ مُلْكِ سُلَيْمَانَ ۖ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَـٰكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ ۚ وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّىٰ يَقُولَا إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ ۖ فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ ۚ وَمَا هُم بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّـهِ ۚ وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ ۚ وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنِ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ ۚ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهِ أَنفُسَهُمْ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ

      اور (اب بھی یہی ہوا ہے کہ) جب اللہ کی طرف سے ایک پیغمبر [239] اُن پیشین گوئیوں کے مطابق اِن کے پا س آ گیا ہے جو اِن کے ہاں موجود ہیں تو یہ لوگ جنھیں کتاب دی گئی، اِن میں سے ایک گروہ نے اللہ کی اِس کتاب کو اِس طرح اپنی پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا، گویا وہ اِسے جانتے ہی [240] نہیں۔اور (پیغمبر کو ضرر پہنچانے کے لیے) اُس چیز کے پیچھے لگ گئے [241] جو سلیمان کی بادشاہی کے نام پر شیاطین پڑھتے پڑھاتے [242] ہیں۔ (یہ اُسے سلیمان کی طرف منسوب کرتے ہیں)، دراں حالیکہ سلیمان نے کبھی کفر نہیں کیا، بلکہ اِسی طرح کے شیطانوں نے کفر کیا۔ وہ لوگوں کو جادو سکھاتے [243] تھے۔ اور اُس چیز کے پیچھے لگ گئے [244] جو بابل میں دو فرشتوں، ہاروت و ماروت پر اتاری گئی تھی، [245] دراں حالیکہ وہ دونوں اُس وقت تک کسی کو کچھ نہ سکھاتے تھے، [246] جب تک اُسے بتا نہ دیتے کہ ہم تو صرف ایک آزمایش ہیں، [247] اِس لیے تم اِس کفر میں نہ [248] پڑو۔ پھر بھی یہ اُن سے وہ علم سیکھتے تھے جس سے میاں اور بیوی میں جدائی ڈال دیں، [249] او ر حقیقت یہ تھی کہ اللہ کی اجازت کے بغیر یہ اُس سے کسی کا کچھ بھی بگاڑ نہ سکتے [250] تھے۔(یہ اِس بات سے واقف تھے) اورـ اِس کے باوجود وہ چیزیں سیکھتے تھے جو اِنھیں کوئی نفع نہیں دیتی تھیں، بلکہ نقصان پہنچاتی تھیں، [251] دراں حالیکہ یہ جانتے تھے کہ جو اِن چیزوں کا خریدار ہے، اُس کے لیے پھر آخرت میں کوئی حصہ نہیں [252] ہے۔ کیا ہی بری ہے وہ چیز جس کے بدلے میں اِنھوں نے اپنی جانیں بیچ دیں۔ اے کاش، یہ جانتے۔

      جاوید احمد غامدی

      جاوید احمد غامدی

      239 یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔

      240 مطلب یہ ہے کہ نبی آخر الزماں کے بارے میں خود اپنی ہی کتاب کی پیشین گوئیوں کو اِس طرح نظر انداز کر دیا گویا اُن سے واقف ہی نہیں تھے۔

      241 یعنی پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے اور اُن کی پیروی کرنے کے بجاے اُن کو ضرر پہنچانے کے درپے ہوئے اور اِس کے لیے اپنے اُن عاملوں کے پیچھے لگے جو اِن کے ہاں سفلی اور روحانی علوم کی دکانیں لگائے بیٹھے ہیں۔ قرآن مجید کی سورۂ فلق(۳ ۱۱) کے الفاظ ’مِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِ‘ میں اللہ تعالیٰ نے یہود کے اِنھی اشرار سے بچنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو برابر اپنے پروردگار کی پناہ چاہنے کی ہدایت فرمائی ہے۔

      242 اصل میں ’عَلٰی مُلْکِ سُلَیْمٰنَ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن میں تضمین کا اسلوب ہے، یعنی ’مُفْتِرِیْنَ عَلٰیمُلْکِ سُلَیْمٰنَ‘۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح آج کے لوگ سفلی علوم کے لیے سلیمان علیہ السلام کا حوالہ دیتے ہیں، اُسی طرح یہود بھی اپنے اِس نوعیت کے مزخرفات کو اُنھی سے منسوب کرتے تھے۔ اِس کی وجہ غالباً یہ ہوئی کہ شیاطین جن سلیمان علیہ السلام کے تابع فرمان تھے۔ اِس طرح کے علوم چونکہ زیادہ تر جنات کے تصرفات سے پیدا ہوتے ہیں، اِس لیے تقدس کا رنگ دینے کے لیے لوگوں نے اِنھیں آں جناب سے منسوب کر دیا۔

      243 اصل میں ’وَمَا کَفَرَ سُلَیْمٰنُ‘ سے لے کر ’یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ‘ تک یہ پوری بات ایک جملۂ معترضہ ہے جو سلسلۂ کلام کے بیچ میں حضرت سلیمان علیہ السلام کو یہود کے لگائے ہوئے الزامات سے بری قرار دینے کے لیے اِس طرح آ گیا ہے گویا متکلم کو اِن علوم سفلیہ کی نسبت اُن سے اتنی ناگوار ہے کہ اُس نے اِس کی تردید کے معاملے میں بات کے پورا ہو لینے کا انتظار بھی نہیں کیا۔ پھر یہ تردید بھی، اگر غور کیجیے تو ایسے اسلوب میں کی گئی ہے کہ سحر و ساحری کا کفر ہونا اُس سے ایک ثابت شدہ حقیقت کے طور پر بالکل واضح ہو جاتا ہے۔

      244 اِس سے پہلے کا جملہ، جیسا کہ اوپر بیان ہوا، ایک جملۂ معترضہ ہے۔ لہٰذا آیت میں عطف لازماً ’مَاتَتْلُوا الشَّیٰطِیْنُ‘ پر ہے۔ یہ سحر و ساحری سے، جسے قرآن نے یکسر کفر قرار دیا ہے، بالکل مختلف کوئی علم تھا۔یہ بات ’تَتْلُوا الشَّیٰطِیْنُ‘ پر اِس کے عطف سے بھی واضح ہے، اِس علم کے لیے ’مَآ اُنْزِلَ‘ کے جو الفاظ آئے ہیں، اُن سے بھی معلوم ہوتی ہے، اور اِس کے لیے لفظ ’فِتْنَۃٌ‘ کے استعمال سے بھی صاف مترشح ہے۔ لہٰذا اُن لوگوں کی راے کسی طرح صحیح نہیں ہے جو اِسے جادو سمجھتے ہیں اور اِس کے لیے اُن دو فرشتوں کے بارے میں جن پر یہ نازل ہوا، ایک فضول سا قصہ بھی سناتے ہیں۔ لیکن یہ اگر جادو نہیں تھا تو سوال یہ ہے کہ پھر یہ کون سا علم تھا؟ استاذ امام امین احسن اصلاحی اِس کے بارے میں لکھتے ہیں:

      ’’ہمارے نزدیک اِس سے مراد اشیا اور کلمات کے روحانی خواص اور تاثیرات کا وہ علم ہے جس کا رواج یہود کے صوفیوں اور پیروں میں ہوا اور جس کو اُنھوں نے گنڈوں،تعویذوں اور مختلف قسم کے عملیات کی شکل میں مختلف اغراض کے لیے استعمال کیا، مثلاً بعض امراض یا تکالیف کے ازالے کے لیے یا نظر بد اور جادو وغیرہ کے برے اثرات دور کرنے کے لیے یا شعبدہ بازوں وغیرہ کے فتنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے یا محبت اور نفرت کے اثرات ڈالنے کے لیے۔ یہ علم اِس اعتبار سے جادو اور نجوم وغیرہ سے بالکل مختلف تھا کہ اِس میں نہ تو شرک کی کوئی ملاوٹ تھی اور نہ اِس میں شیطان اور جنات کو کوئی دخل تھا، لیکن اپنے اثرات و نتائج کے پیدا کرنے میں یہ جادو ہی کی طرح زود اثر تھا۔ ممکن ہے بنی اسرائیل کو یہ علم بابل کے زمانۂ اسیری میں دو فرشتوں کے ذریعے سے اِس لیے دیا گیا ہو کہ اِس کے ذریعے سے بابل کی سحر و ساحری کا مقابلہ کرسکیں اور اپنی قوم کے کم علموں اور سادہ لوحوں کو جادوگروں کے رعب سے محفوظ رکھ سکیں۔ اِس بات کی طرف ہمارا ذہن دو وجہ سے جاتا ہے: ایک تو اِس وجہ سے کہ تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ بابل میں سحر و ساحری اور نجوم کا بڑا زور تھا۔ دوسری یہ کہ یہ بات سنت اللہ کے موافق معلوم ہوتی ہے کہ اگر کسی جگہ ایک غلط علم کا رعب اور زور ہو جس سے مفسد لوگ فائدہ اٹھا رہے ہوں تو وہاں اللہ تعالیٰ اُس کے مقابلے کے لیے اہل ایمان کو کوئی ایسا علم بھی عطا فرمائے جو جائز اور نافع ہو۔‘‘

      ( تدبر قرآن ۱/ ۲۸۵)

      اِس کے بعد اُنھوں نے لکھا ہے:

      ’’ہمارا خیال یہ ہے کہ اِسی علم کے باقیات ہیں جن کو ہمارے صوفیوں اور پیروں کے ایک طبقہ نے اپنایا اور اِس سے اُنھوں نے لوگوں کو فائدہ بھی پہنچایا، بلکہ واقعات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بعض حالات میں اِس کی مدد سے اُنھوں نے جوگیوں اور جوتشیوں وغیرہ کے مقابل میں اسلام اور مسلمانوں کی برتری بھی ثابت کی، لیکن اخلاقی زوال کے بعد جس طرح یہود کے ہاں یہ علم علوم سفلیہ کا ایک ضمیمہ اور دکان داری کا ایک ذریعہ بن کے رہ گیا، اُسی طرح ہمارے یہاں بھی یہ صرف پیری مریدی کی دکان چلانے کا ذریعہ بن کر رہ گیا اور حق سے زیادہ اِس میں باطل کے اجزا شامل ہو گئے جس کے سبب سے لوگوں پر اِس کے اثرات بھی وہی پڑے جو قرآن نے بیان فرمائے۔‘‘

      ( ۱/ ۲۸۶)

      245 ’وَمَاکَفَرَ سُلَیْمٰنُ‘ والے جملے کی طرح ’وَمَا یُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ‘ سے ’فَلَا تَکْفُرْ‘ تک یہ جملہ بھی آیت میں ایک جملۂ معترضہ ہے جو ہاروت و ماروت کی بریت کے لیے وارد ہوا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اِس تنبیہ کے بغیر کہ ہمارے اِس علم کو برے مقاصد کے لیے استعمال کر کے تم لوگ کفر میں نہ پڑ جانا، وہ کسی پر اپنے علم کا انکشاف نہیں کرتے تھے۔

      246 اِس سکھانے کی نوعیت اگرچہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ یہ فرشتے انسانی روپ میں لوگوں کو تعلیم دیتے رہے ہوں، لیکن غالب امکان اِسی بات کا ہے کہ لوگ کسی خاص قسم کی ریاضت اور چلہ کشی کے ذریعے سے اُن کے ساتھ کوئی روحانی قسم کا ربط پیدا کر کے یہ علم اُن سے سیکھ لیتے تھے۔

      247 اصل میں لفظ ’فِتْنَۃٌ‘ استعمال ہوا ہے۔ اِس کے معنی امتحان اور آزمایش کے ہیں۔ قرآن میں اِس سے بالعموم وہ چیزیں مراد لی گئی ہیں جو اصلاً انسان کے فائدے ہی کے لیے پیدا کی گئی ہیں، لیکن انسان اپنے استعمال کی غلطی سے اُنھیں اپنے لیے فتنہ بنا لیتا ہے۔ ہاروت و ماروت کی طرف سے اپنے علم کے لیے اِس لفظ کا استعمال دلیل ہے کہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ علم کوئی بری چیز نہ تھا۔

      248 اصل میں ’فَلَا تَکْفُرْ‘کے جو الفاظ آئے ہیں، اُن میں نہی نتیجے کے لحاظ سے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہمارا یہ علم ایک دو دھاری تلوار کی حیثیت رکھتا ہے۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ تم لوگ اِسے سیکھ کر برے مقاصد کے لیے استعمال کرو گے اور اِس طرح کفر و شرک میں مبتلا ہو جاؤ گے۔

      249 اِس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہود اخلاقی فساد ،پست ہمتی اور دنایت میں کہاں تک گر چکے تھے۔ فرشتوں کی تنبیہ کے باوجود، قرآن بتاتا ہے کہ اُن کی سب سے زیادہ رغبت اُن اعمال سے تھی جو میاں بیوی کے رشتۂ محبت کے لیے مقراض بن جائیں، دراں حالیکہ یہی رشتہ ہے جس کے استحکام پر پورے انسانی تمدن کے استحکام کی بنیاد ہے۔

      250 یہ جملہ بھی بطور استدراک ہے اور اِس سے توحید پر ایمان کا یہ تقاضا واضح ہوتا ہے کہ بندۂ مومن کو اولاً، اِس طرح کی چیزوں سے رغبت ہی نہیں رکھنی چاہیے۔ ثانیاً، اِن میں سے کسی چیز سے واسطہ پڑے تو اِسے موثر بالذات نہیں سمجھنا چاہیے۔ ثالثاً، اِن سے ضرر کا اندیشہ ہو تو صرف اپنے پروردگار کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔تعویذ گنڈوں اور اُن کے ماہر عاملوں اور سیانوں کے چکر میں نہیں پھنسنا چاہیے۔ اِس لیے کہ شیطانی علوم ہوں یا روحانی، اِن سے اللہ کے اذن کے بغیرکسی کو کوئی نفع یا ضرر نہیں پہنچایا جاسکتا۔

      251 یعنی اِن کی ذہنیت اِس قدر پست ہو چکی تھی کہ ایک علم جس سے نفع و نقصان ،دونوں پہنچ سکتے تھے، یہ اِسے دوسروں کو صرف نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کرتے تھے۔

      252 یہود اِس بات سے اچھی طرح واقف تھے، اِس لیے کہ تورات میں اُنھیں نہایت واضح الفاظ میں اِس طرح کے فتنوں میں پڑنے سے روکا گیا تھا۔ استثنا میں ہے:

      ’’جب تو اُس ملک میں جو خداوند تیرا خدا تجھے دیتا ہے، پہنچ جائے تو وہاں کی قوموں کی طرح مکروہ کام کرنے نہ سیکھنا۔ تجھ میں ہرگز کوئی ایسا نہ ہو جو اپنے بیٹے یا بیٹی کو آگ میں چلوائے یا فال گیر یا شگون نکالنے والا یا افسون گر یا جادوگر یا منتری یا جنات کا آشنا یا رمال یا ساحر ہو، کیونکہ وہ سب جو ایسے کام کرتے ہیں، خدا وند کے نزدیک مکروہ ہیں اور اِن ہی مکروہات کے سبب سے خداوند تیرا خدا اُن کوتیرے سامنے سے نکالنے پر ہے۔‘‘

      (۱۸ :۹-۱۲)

    • Nadeem Minhas

      Member April 28, 2021 at 12:40 pm

      [2:102] They pursued what the devils taught concerning Solomon’s kingdom. Solomon, however, was not a disbeliever, but the devils were disbelievers. They taught the people sorcery, and that which was sent down through the two angels of Babel, Haroot and Maroot. These two did not divulge such knowledge without pointing out: “This is a test. You shall not abuse such knowledge.” But the people used it in such evil schemes as the breaking up of marriages. They can never harm anyone against the will of GOD. They thus learn what hurts them, not what benefits them, and they know full well that whoever practices witchcraft will have no share in the Hereafter. Miserable indeed is what they sell their souls for, if they only knew.

      اور (اب بھی یہی ہوا ہے کہ) جب اللہ کی طرف سے ایک پیغمبر [239] اُن پیشین گوئیوں کے مطابق اِن کے پا س آ گیا ہے جو اِن کے ہاں موجود ہیں تو یہ لوگ جنھیں کتاب دی گئی، اِن میں سے ایک گروہ نے اللہ کی اِس کتاب کو اِس طرح اپنی پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا، گویا وہ اِسے جانتے ہی [240] نہیں۔اور (پیغمبر کو ضرر پہنچانے کے لیے) اُس چیز کے پیچھے لگ گئے [241] جو سلیمان کی بادشاہی کے نام پر شیاطین پڑھتے پڑھاتے [242] ہیں۔ (یہ اُسے سلیمان کی طرف منسوب کرتے ہیں)،

      دراں حالیکہ سلیمان نے کبھی کفر نہیں کیا، بلکہ اِسی طرح کے شیطانوں نے کفر کیا۔ وہ لوگوں کو جادو سکھاتے [243] تھے۔ اور اُس چیز کے پیچھے لگ گئے [244] جو بابل میں دو فرشتوں، ہاروت و ماروت پر اتاری گئی تھی، [245] دراں حالیکہ وہ دونوں اُس وقت تک کسی کو کچھ نہ سکھاتے تھے، [246] جب تک اُسے بتا نہ دیتے کہ ہم تو صرف ایک آزمایش ہیں، [247] اِس لیے تم اِس کفر میں نہ [248] پڑو۔ پھر بھی یہ اُن سے وہ علم سیکھتے تھے جس سے میاں اور بیوی میں جدائی ڈال دیں، [249] او ر حقیقت یہ تھی کہ اللہ کی اجازت کے بغیر یہ اُس سے کسی کا کچھ بھی بگاڑ نہ سکتے [250] تھے۔(یہ اِس بات سے واقف تھے) اورـ اِس کے باوجود وہ چیزیں سیکھتے تھے جو اِنھیں کوئی نفع نہیں دیتی تھیں، بلکہ نقصان پہنچاتی تھیں، [251] دراں حالیکہ یہ جانتے تھے کہ جو اِن چیزوں کا خریدار ہے، اُس کے لیے

      پھر آخرت میں کوئی حصہ نہیں [252] ہے۔ کیا ہی بری ہے وہ چیز جس کے بدلے میں اِنھوں نے اپنی جانیں بیچ دیں۔ اے کاش، یہ جانتے۔

  • Sohail Kouser

    Member April 28, 2021 at 6:53 am

    Hi,

    There is no empirical evidence that magic exists in our world. Mostly what is considered magic are mental illnesses.

    Unfortunately, many muslims are wasting their energies on magic and the like.

    Thanks

    • Nadeem Minhas

      Member April 28, 2021 at 7:26 am

      Brother Sohail. Resoectfully, Please research. It does exist and in some countries, it is practiced as a religion too

    • Faisal Haroon

      Moderator April 28, 2021 at 10:00 am

      Empirical evidence for magic is an oxymoron. Also just because there’s no evidence for something doesn’t mean that it’s non-existence is conclusively proven. Anyone who understands science can’t deny that an invisible force can influence events or cause changes in material conditions, which is what magic generally is.

      That said, it’s true that a lot of people become victims to impostors and waste their time and money. However, it’s not entirely correct to attribute such practice to only Muslims.

You must be logged in to reply.
Login | Register