Ask Ghamidi

A Community Driven Discussion Portal
To Ask, Answer, Share And Learn

Forums Forums Sources of Islam Difference Between Rohbaniyat And Siyahat In Islam

Tagged: ,

  • Difference Between Rohbaniyat And Siyahat In Islam

    Posted by Rizwan Ullah on May 1, 2021 at 6:32 am

    A.O.A. Soorah tobah ayat 112 k tanazur main islam main siyahat (tourism) or rohbaniyat ka keya tassawar hey.? Es ayat k pas e manzar main tableeghi jamat ka keya tasawar hoga?

    Es ayat k tanazur main hazrat abu umama bahli(R.A) sey marwi hadees ki b wazahat farma dain.

    Shukriya.

    Ahsan replied 2 years, 10 months ago 3 Members · 2 Replies
  • 2 Replies
  • Difference Between Rohbaniyat And Siyahat In Islam

    Ahsan updated 2 years, 10 months ago 3 Members · 2 Replies
  • Umer

    Moderator May 1, 2021 at 2:45 pm

    اَلتَّآئِبُوۡنَ الۡعٰبِدُوۡنَ الۡحٰمِدُوۡنَ السَّآئِحُوۡنَ الرّٰکِعُوۡنَ السّٰجِدُوۡنَ الۡاٰمِرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ النَّاہُوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ الۡحٰفِظُوۡنَ لِحُدُوۡدِ اللّٰہِ ؕ وَ بَشِّرِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۱۲﴾

    وہ توبہ کرنے والے ہیں، عبادت کرنے والے ہیں، شکر کرنے والے ہیں، (خدا کی راہ میں) سیاحت کرنے والے ہیں، (اُس کے آگے) رکوع اور سجدہ کرنے والے ہیں، بھلائی کی تلقین کرنے والے ہیں، برائی سے روکنے والے ہیں اور حدود الٰہی کی حفاظت کرنے والے [283] ہیں۔ وہی سچے مومن ہیں، (اے پیغمبر)، اوراِن مومنوں کو خوش خبری [284] دے دو۔

    (Quran 9:112)

    (Excerpt from Al-Bayan: Javed Ahmed Ghamidi)

    _________________________

    [283] اصل میں مبتدا محذوف ہے، یعنی ’ھم التائبون‘۔ یہ منافقین کے سامنے اُن اوصاف کی وضاحت کر دی ہے، جن کا حامل ہر سچے مومن کو ہونا چاہیے تاکہ وہ یہ فیصلہ کرسکیں کہ ایمان کے تقاضے کیا ہیں اور کون سا رویہ کفر اور نفاق میں داخل ہے؟ استاذ امام لکھتے ہیں:

    ’’یہاں اہل ایمان کے کردار کے جو اجزا بیان ہوئے ہیں، اُن میں سب سے پہلے توبہ کا ذکر ہے۔ توبہ کے معنی رجوع الی اللہ کے ہیں۔ خدا کی بندگی اور اطاعت کی راہ میں بندے کا پہلا قدم یہی ہے کہ وہ شیطانی راہوں میں ہرزہ گردی چھوڑ کر اپنے رب کی طرف لوٹتا ہے اور اُس کی صراط مستقیم پر چلنے کا عزم کرتا ہے۔ پھر یہی توبہ ہے جو ہر گام پر اُس کو سنبھالتی ہے۔ جب کبھی اُس کا کوئی قدم راہ سے بے راہ ہو جاتا ہے، یہ توبہ اُس کی دست گیری کرتی اور اُس کو راہ پر لگاتی ہے۔ توبہ کے بعد عبادت کا ذکر ہے۔ یہ خدا کے سب سے بڑے حق کا حوالہ ہے۔ جو بندہ خدا کی طرف رجوع کرتا ہے، اُس پر خدا کا اولین حق اُس کی عبادت کا عائد ہوتا ہے اور چونکہ خدا کے سوا کوئی اور اِس حق میں ساجھی نہیں ہے، اِس وجہ سے اِس کا بلاشرکت غیرے ہونا اِس کی صفت لازمی ہے اور ساتھ ہی اطاعت بھی چونکہ اِس کا بدیہی تقاضا ہے، اِس وجہ سے وہ بھی اِس کا جزو لاینفک ہے۔ عبادت کے ساتھ حمد کا ذکر ہے جو تمام عبادات کی روح ہے، اِس لیے کہ نماز اور زکوٰۃ وغیرہ ۔۔۔ سب خدا کی شکرگزاری اور اُس کی نعمتوں کے اعتراف کے مظاہر ہیں۔ اگر بندے کے اندر شکرگزاری اور اعتراف نعمت کا جذبہ بطور ایک صفت کے راسخ نہ ہو تو نہ تو وہ عبادت کا حق ادا کرنے پر آمادہ ہی ہوتا ہے اور نہ اُس کی عبادت کے اندر کوئی روح ہی ہوتی ہے۔ اِس کے بعد سیاحت کا ذکر ہے ۔۔۔ یہ اُن تمام سرگرمیوں، مشقتوں اور ریاضتوں کی ایک جامع تعبیر ہے جو آدمی اپنے ظاہر و باطن کی تربیت و اصلاح، دین کو سمجھنے اور سمجھانے، اُس کو پھیلانے اور بڑھانے کے لیے والہانہ اور سرفروشانہ اختیار کرتا ہے اور جن کی راہ میں اپنی زندگی کی لذتیں، راحتیں، امنگیں اور خوشیاں بے دریغ قربان کرتا ہے۔ پھر نماز کاذکر ہے جس کے لیے ’الرّٰکِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ‘ کی تعبیر اختیار کی گئی ہے۔ نماز کاذکر قرآن میں جہاں جہاں اِس اسلوب سے ہوا ہے، وہاں صرف فرض نمازیں مراد نہیں ہیں، بلکہ خلوت کی نمازیں مراد ہیں۔ یہی نمازیں اُن تمام چیزوں کی محافظ بھی ہیں جن کا ذکر اوپر ہوا ہے اور یہی اُس ریاضت کو بھی زندگی اور نشوونما بخشتی ہیں جو سیاحت کے لفظ سے تعبیر کی گئی۔ اِس کے بعد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ذکر ہے۔ اوپر جو باتیں بیان ہوئی ہیں، اُن کا بیش تر تعلق فرد کی اپنی اصلاح و تربیت سے ہے۔ اب یہ اُن کا تعلق قوم اور جماعت کے ساتھ واضح کیا جا رہا ہے کہ وہ نیکی کاحکم دینے والے اور برائی سے روکنے والے ہیں۔ وہ دوسروں کے خیر و شر سے بے تعلق رہ کر زندگی نہیں گزارتے، بلکہ دوسروں کی اصلاح و تربیت کے لیے بھی اپنے اندر تڑپ رکھتے ہیں اور اپنی طاقت و صلاحیت کے مطابق اصلاح منکر کافرض انجام دیتے ہیں۔ آخر میں حفظ حدود اللہ کا ذکر ہے۔ یہ درحقیقت تقویٰ کی تعبیر ہے اور خاتمہ پر ایک ایسی صفت کا حوالہ دے دیا گیا ہے جو سب سے زیادہ جامع ہے۔ یعنی وہ زندگی کے تمام مراحل میں برابر چوکنے رہتے ہیں کہ خدا نے جو حدود قائم فرمائے ہیں، اُن میں سے کوئی حد ٹوٹنے نہ پائے۔ نہ وہ خود کسی حد کو توڑنے کی جسارت کرتے ہیں اور نہ اپنے امکان کی حد تک کسی دوسرے کو اُس کے توڑنے کی اجازت دیتے ہیں۔‘‘

    [284] اِس جملے کا معطوف علیہ محذوف ہے۔ ہم نے ترجمے میں اُسے کھول دیا ہے۔

  • Ahsan

    Moderator May 4, 2021 at 12:49 pm

    KIndly refer to following video from 32:06 to 39:40 which you may find helpful in your question

You must be logged in to reply.
Login | Register