Ask Ghamidi

A Community Driven Discussion Portal
To Ask, Answer, Share And Learn

Forums Forums Sources of Islam Quran 33:37 – Tafseer Requested

Tagged: 

  • Quran 33:37 – Tafseer Requested

    Posted by Rafi Sheikh on August 10, 2021 at 4:07 am

    وَإِذۡ تَقُولُ لِلَّذِیۤ أَنۡعَمَ ٱللَّهُ عَلَیۡهِ وَأَنۡعَمۡتَ عَلَیۡهِ أَمۡسِكۡ عَلَیۡكَ زَوۡجَكَ وَٱتَّقِ ٱللَّهَ وَتُخۡفِی فِی نَفۡسِكَ مَا ٱللَّهُ مُبۡدِیهِ وَتَخۡشَى ٱلنَّاسَ وَٱللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخۡشَىٰهُۖ فَلَمَّا قَضَىٰ زَیۡدࣱ مِّنۡهَا وَطَرࣰا زَوَّجۡنَـٰكَهَا لِكَیۡ لَا یَكُونَ عَلَى ٱلۡمُؤۡمِنِینَ حَرَجࣱ فِیۤ أَزۡوَ ٰ⁠جِ أَدۡعِیَاۤىِٕهِمۡ إِذَا قَضَوۡا۟ مِنۡهُنَّ وَطَرࣰاۚ وَكَانَ أَمۡرُ ٱللَّهِ مَفۡعُولࣰا ﴿ ٣٧ ﴾

    • ابوالاعلی مودودی:

    اے نبیؐ ، یاد کرو وہ موقع جب تم اس شخص سے کہہ رہے تھے جس پر اللہ نے اور تم نے احسان کیا تھا کہ ’’اپنی بیوی کو نہ چھوڑ اور اللہ سے ڈر ‘‘۔ اُس وقت تم اپنے دل میں وہ بات چھپائے ہوئے تھے جسے اللہ کھولنا چاہتا تھا، تم لوگوں سے ڈر رہے تھے ، حالانکہ اللہ اس کا زیادہ حقدار ہے کہ تم اس سے ڈرو پھر جب زیدؓ اس سے اپنی حاجت پوری کر چکا۔ تو ہم نے اس (مطلقہ خاتون) کا تم سے نکاح کر دیا تاکہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے معاملہ میں کوئی تنگی نہ رہے جبکہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کر چکے ہوں اور اللہ کا حکم تو عمل میں آنا ہی چاہئے تھا (37)

    Al-Ahzab, Ayah 37

    AoA. Where I could find the tafseer or details on this ayah? JazakAllah

    Rafi Sheikh replied 2 years, 8 months ago 2 Members · 2 Replies
  • 2 Replies
  • Quran 33:37 – Tafseer Requested

    Rafi Sheikh updated 2 years, 8 months ago 2 Members · 2 Replies
  • Faisal Haroon

    Moderator August 10, 2021 at 9:22 am

    You can look it up in Al-Bayan. The entire exegesis of Ghamidi sahab is available in the Ghamidi app available for free in the iOS and Android app stores. I’m copying the relevant part below:

    (اِنھوں [79] نے یہ فتنہ اُس وقت اٹھایا)، جب تم اُس شخص سے بار بار کہہ رہے تھے جس پر اللہ نے انعام کیا اور تم نے بھی انعام کیا [80] کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس روکے رکھو اور اللہ سے [81] ڈرو، اور تم اپنے دل میں وہ بات چھپائے ہوئے تھے جس کو اللہ ظاہر کرنے والا [82] تھا۔ اور تم لوگوں سے ڈر رہے [83] تھے، حالاں کہ اللہ زیادہ حق دار ہے کہ تم اُس سے [84] ڈرو۔ پھر جب زید نے اپنا رشتہ بیوی سے منقطع کر لیا [85] تو ہم نے اُس کو تم سے بیاہ دیا [86] تاکہ مسلمانوں پر اُن کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے معاملے میں کوئی تنگی نہ [87] رہے، جب وہ اپنا رشتہ اُن سے منقطع کر لیں۔ اور خدا کا حکم تو ہو کر ہی رہنا [88] تھا۔

    جاوید احمد غامدی

    79 یہاں سے آگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہ کے واقعے کی طرف اشارہ فرمایا ہے جن کا نکاح حضور نے بہ اصرار اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب بنت جحش سے محض اِس لیے کرا دیا تھا کہ غلاموں کا مرتبہ معاشرے میں بڑھایا جائے اور اُن سے متعلق لوگوں کے تصورات میں تبدیلی پیدا ہو۔ لیکن اِس قسم کی معاشرتی اصلاحات کو لوگ آسانی سے قبول نہیں کرتے، اِس وجہ سے اِس نکاح کے خلاف ایک مخالفانہ فضا پیدا ہوگئی جس میں، ہوسکتا ہے کہ اِس طرح کی باتیں بھی کہی گئی ہوں کہ زینب ایک معزز گھرانے کی خاتون ہیں، مگر اُن پر یہ کیسا ظلم ہے کہ اُنھیں ایک ایسے شخص کے حبالۂ عقد میں دے دیا گیا ہے جو ابھی کل تک ایک زرخرید غلام تھا۔ یہ زید بن حارثہ کون تھے؟ استاذ امام لکھتے ہیں:

    ’’حضرت زید بن حارثہ کا تعلق قبیلۂ کلب سے تھا۔ یہ بچپن میں دشمن کی کسی غارت گری میں گرفتار ہوئے اور غلام بنا لیے گئے۔ حکیم بن حزام نے اِن کو اپنی پھوپھی حضرت خدیجہ کے لیے خریدا۔ حضرت خدیجہ جب آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد نکاح میں آئیں تو اُنھوں نے اِن کو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کر دیا۔ اِس طرح اِن کو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کا شرف حاصل ہوا۔ حضور کی غلامی کی جو قدر و عزت اِن کی نگاہوں میں تھی، اُس کا اندازہ اِس سے کیجیے کہ جب اِن کے والد اور چچا نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اِن کی آزادی کا مطالبہ کیا تو حضورنے اِن کو اختیار دے دیا کہ وہ چاہیں تو اپنے باپ کے پاس چلے جائیں، چاہیں تو حضور کی خدمت میں رہیں۔ اِس موقع پر حضرت زید نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی محبت کی جو مثال پیش کی، وہ تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ اُنھوں نے آزادی کا اختیار نامہ پا جانے کے باوجود اِس آزادی پر حضور کی غلامی کو ترجیح دی۔ خواجہ حافظ نے شاید اِسی واقعے کو سامنے رکھ کر اپنا یہ لاجواب شعر کہا ہو: بولاے تو کہ گر بندۂ خویشم خوانی از سر خواجگی کون و مکاں بر خیزم اِس کے بعد حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اِن کو آزاد کر دیا۔ اِن سے محبت تو اِن کی خوبیوں کے سبب سے حضور کو شروع ہی سے تھی، اِس واقعے کے بعد وہ دوچند ہو گئی، یہاں تک کہ حضور کے غیر معمولی التفات و اعتماد کو دیکھ کر لوگوں نے یہ گمان کر لیا کہ آپ نے اِن کو منہ بولا بیٹا بنا لیا ہے*۔‘‘

    (تدبرقرآن ۶/ ۲۲۷)

    * الاصابہ فی تمییز الصحابہ، ابن حجر العسقلانی ۱/ ۵۶۳۔

    80 زید رضی اللہ عنہ کا یہ بڑا ہی دل نواز تعارف ہے، یعنی اللہ و رسول کے انعام یافتہ اور منظور نظر اور اِن الفاظ میں غالباً اِس لیے کرایا گیا ہے کہ منافقین کو تنبیہ ہو جو اُن کی غلامی کی وجہ سے قریش کی ایک شریف زادی کے ساتھ اُن کے نکاح کا مذاق اڑاتے رہے ہوں گے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

    ’’اللہ تعالیٰ کا انعام یوں تو ہر فرد پر ہے۔ بندہ جو کچھ بھی پاتا ہے، خدا ہی سے پاتا ہے۔ لیکن حضرت زید کے حالات پر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ اُن کے ساتھ بالکل اُس طرح کا معاملہ ہوا، جس طرح کا معاملہ حضرت یوسف کے ساتھ ہوا۔ یہ ایک غارت گری میں گرفتار ہوئے، (غالباً ایک نصرانی کے) غلام رہے، پھر غلام ہو کر بکے، بالآخر درجہ بدرجہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کارسازی سے اِن کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دیا جس کے بعد اِن کے لیے دین و دنیا کی سعادتوں کے دروازے کھل گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انعام اِن پر یہ ہوا کہ آپ کے فیض خدمت سے اِن کو اسلام کی نعمت حاصل ہوئی۔ آپ نے اِن کو محبت و اعتماد کا وہ مقام بخشا کہ لوگ اِن کو حضور کا منہ بولا بیٹا سمجھنے لگے۔ آپ نے اِن کو غلامی سے آزادی بخشی۔ اپنی حقیقی پھوپھی زاد بہن سے شادی کر دی۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ حضور نے اِن کو اپنے اہل بیت میں شامل کر لیا جس سے بڑا خاندانی شرف کوئی اور نہیں ہو سکتا۔‘‘

    (تدبرقرآن۶/ ۲۳۴)

    81 یعنی بغیر کسی معقول وجہ کے طلاق نہ دو، یہ اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے۔ آپ نے یہ اِس لیے فرمایا کہ زید اپنے ارادے کے حق میں اِس سے زیادہ کوئی بات نہیں بتارہے تھے کہ میرے مقابل میں وہ اپنے خاندانی شرف کے باعث تفوق کا احساس رکھتی ہیں۔ اِس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا تھا کہ اِس میں حضرت زینب کے رویے سے زیادہ حضرت زید کی شدت احساس کو دخل ہے۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام دل داریوں کے باوجود وہ اپنی غلامی کے دور کو بھولے نہیں تھے۔ پھر حضرت زینب کے بارے میں بیان کیا گیا ہے کہ اُن کے مزاج میں فی الجملہ تمکنت اور تیزی بھی تھی اور منافقین نے فضا بھی بہت کچھ بدگمانی کی بنا دی تھی۔ چنانچہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ تمام فتنہ اور بدمزگی اُن کے نکاح کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے اور اِس کا علاج اب یہی ہے کہ اِسے ختم کر دیا جائے تاکہ زینب کی کبیدگی بھی رفع ہو اور وہ بھی اپنے سر کا بوجھ اتار کر اطمینان کا سانس لیں۔ آیت میں ’اِذْ تَقُوْلُ‘کے الفاظ سے یہ بات نکلتی ہے کہ زید رضی اللہ عنہ نے اپنے ارادے کا اظہار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کئی بار کیا اور حضور ہر بار اُنھیں اِس سے روکتے رہے۔ یہ بات اگر نہ ہوتی تو عربیت کی رو سے ’قُلْتَ‘ کافی تھا، اِس کے لیے ’تَقُوْلُ‘ کی ضرورت نہیں تھی۔

    82 وہ کیا بات تھی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دل میں چھپائے ہوئے تھے؟ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے وضاحت فرمائی ہے، وہ لکھتے ہیں:

    ’’۔۔۔ یہ نکاح چونکہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی ایک دینی مصلحت کے تحت کرایا تھا، اِس وجہ سے آپ کی دلی آرزو یہی تھی کہ یہ کامیاب ہو۔ چنانچہ آپ نے حضرت زید کو ارادۂ طلاق سے بہ تاکید روکنے کی کوشش کی۔ آپ کے دل میں یہ خیال تھا کہ اگر زید نے طلاق دے دی تو زینب کو دہرا غم ہوگا کہ اُنھوں نے اِس نکاح کی بدولت دشمنوں کے طعنے بھی سنے اور بالآخر ایک آزاد کردہ غلام کی مطلقہ بن کر اپنی حیثیت عرفی بھی ہمیشہ کے لیے گنوا بیٹھیں۔ اِن کی دل داری اور اِس نقصان کی تلافی کی واحد شکل پھر صرف یہ رہ جاتی تھی کہ حضور خود اُن کو اپنے نکاح میں لے لیں۔ لیکن ایسا کرنے میں یہ اندیشہ تھا کہ منافقین اِس کو ایک اور اِس سے بھی بڑے فتنے کا ذریعہ بنا لیتے اور لوگوں میں یہ پھیلاتے کہ آپ نے اپنے متبنٰی کی بیوی سے نکاح کر لیا ہے۔ آپ اِس فتنے سے بچنا چاہتے تھے، اِس وجہ سے آپ کی دلی آرزو یہی تھی کہ طلاق کی نوبت نہ آئے، لیکن اللہ تعالیٰ کا فیصلہ یہی تھا کہ یہ نوبت آئے تاکہ آپ کے ہاتھوں جاہلیت کی ایک غلط رسم کی اصلاح ہو اور انبیا علیہم السلام پر اللہ تعالیٰ نے یہ ذمہ داری جو ڈالی ہے کہ وہ دین کے معاملے میں کسی کی ملامت و مخالفت کی کوئی پروا نہ کریں، آپ اپنے عمل سے اُس کا مظاہرہ کریں۔‘‘

    (تدبرقرآن۶/ ۲۳۵)

    83 یعنی منافقین اور منافقات سے۔ اِس لیے کہ وہ پروپیگنڈے کا طوفان اٹھا دیتے کہ لیجیے اِنھوں نے اپنے منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے نکاح کر لیا ہے اور اِس بات کا بھی خیال نہیں کیا کہ اِن کے نکاح میں اِس وقت چار بیویاں موجود ہیں، جب کہ خود ہی اعلان فرما چکے ہیں کہ ایک وقت میں چار سے زیادہ عورتوں کو نکاح میں نہیں رکھا جا سکتا۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ چار بیویاں حضرت سودہ، حضرت عائشہ، حضرت حفصہ اور حضرت ام سلمہ تھیں *۔

    * الطبقات الکبریٰ، ابن سعد ۸/۵۲۔

    84 یہ کوئی عتاب نہیں، بلکہ ایک اصولی حقیقت کی یاددہانی ہے کہ اللہ کے پیغمبروں کو دین کے معاملے میں اپنے رب کے سوا ہر خوف و مصلحت سے بے پروا رہنا چاہیے، اِس لیے کہ اِس راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ لوگوں کا خوف اور مصالح کا لحاظ ہی ہے۔

    85 آیت میں ’قَضٰی زَیْدٌ مِّنْھَا وَطَرًا‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ ’وَطَر‘ کا لفظ اصلاً غرض کے معنی میں آتا ہے۔ اردو زبان میں جس طرح ہم کہتے ہیں کہ مجھے اب اُس سے کوئی غرض نہیں ہے اور اِس سے رشتہ و تعلق کا انقطاع مراد لیتے ہیں، اُسی طرح یہاں مراد لیا گیا ہے۔

    86 یعنی اُس کے ساتھ تمھارے نکاح کا فیصلہ کر دیا۔ یہی وہ بات ہے جس کے لیے پیچھے ’تُخْفِیْ فِیْ نَفْسِکَ‘ (تم اپنے دل میں چھپائے ہوئے تھے) کے الفاظ آئے ہیں۔ اللہ نے اُسے ظاہر کر دیا، دراں حالیکہ لوگوں کی ملامت کے اندیشے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گریز کرنا چاہتے تھے۔ روایتوں میں بیان ہوا ہے کہ اِس کے بعد حضور نے حضرت زید ہی کے واسطے سے حضرت زینب کو پیغام بھیجا جسے اُنھوں نے استخارے کے بعد منظور کر لیا۔ چنانچہ اُن کے بھائی ابو احمد بن جحش نے اُنھیں آپ کے نکاح میں دیا۔ اُن کا مہر چار سو درہم مقرر کیا گیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت اہتمام کے ساتھ اِس نکاح کا ولیمہ بھی کیا*۔

    * الطبقات الکبریٰ، ابن سعد ۸/ ۱۰۱۔

    السیرۃ النبویہ، ابن ہشام ۴/ ۲۵۹۔

    87 یعنی وہ اُن کے ساتھ بغیر کسی تردد کے نکاح کر سکیں اور ایک خلاف فطرت رسم جو قائم ہو گئی ہے،اُس کی اصلاح ہو جائے۔

    88 اِس لیے کہ خدا جب کسی چیز کا فیصلہ کر لیتا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اُس کے نفاذ کی راہ میں رکاوٹ پیدا نہیں کر سکتی۔ چنانچہ منافقین نے اِس نکاح کے خلاف جو فتنے اٹھائے، اُن سب کے علی الرغم یہ معاملہ اُسی طرح ہوا، جس طرح اللہ نے چاہا تھا کہ اِسے ہوناچاہیے۔

  • Rafi Sheikh

    Member August 17, 2021 at 4:42 am

    AoA. Apologies for not thanking. Shukriya. This was very satisfying to read the explanation. JazakAllah.

You must be logged in to reply.
Login | Register