-
Seal Of Prophets Ayat
سورۃ الاحزاب کی آیت ۴۰ میں جب اللہ تعالیٰ یہ کہتے ہیں کہ “محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں بلکہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں اور اللہ ہر چیز سے باخبر ہیں” تو اِ س میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں حضور ﷺ کے خاتم النبیین ہونے کا ذکر کرنے کا موقع نہیں تھا۔ یہاں تو بات ہی کچھ اور ہو رہی تھی۔ اب اِس کی وضاحت مولانا امین احسن اصلاحی اور غامدی صاحب نے اِس طرح کی ہے کہ چونکہ وہ اللہ کے آخری نبی تھے اور اِس بات کو عملی طور پر انہوں نے ہی جائز ثابت کرنا تھا کہ آدمی کا اپنے منہ بولے بیٹے کی بیوی سے(اُن کی طلاق کے بعد) نکاح جائز ہے تو اِس لئے اللہ نے اُن کے خاتم النبین ہونے کا ذکر کیا ۔ یہ وضاحت پڑھ کر ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اصلاحی صاحب اور غامدی صاحب نے کلام کی مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایسی اور بھی بہت سی چیزیں کہی جا سکتی ہیں جن کی حرمت اور حلت کے معاملے میں اللہ تعالیٰ نے فتوے دیے ہیں لیکن وہ سب کچھ حضورﷺ سے نہیں کروایا گیا۔ یہ اگر حضور ﷺ کے اصحاب میں سے کوئی کرتا اور حضورﷺ ، اللہ کے حکم سے اُس کی توثیق فرما دیتے تب بھی یہ مومنین کیلئے جائز ہی ہوتا۔
قرآن کے اِس مقام کی وضاحت کی اہمیت اس لئے ہے کہ یہ قرآن کا وہ واحد موقع ہے جہاں الفاظ میں حضورﷺ کے خاتم النبیین ہونے کا ذکر ہے اور اِس کا موقع و محل اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ اِس بارے میں ایک خیال غامدی صاحب کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے خطبات میں جب کبھی کوئی بات بے موقع و محل محسوس ہو یا ایسا لگے کہ کسی ایک مضمون کے بیچ میں کوئی بات ایسی آ گئی ہے جو پوری بات سے بظاہر مطابقت نہیں رکھتی تو وہ عموماً مخاطبین کی طرف سے کئے گئے کسی سوال کا جواب ہوتا ہے۔ اگر مندرجہ بالا آیت کو دیکھیں تو یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ حضور ﷺ کے حضرت زینب سے نکاح کی وجہ سے اِس طرح کی زبان درازی کی گئی ہو گی کہ “یہ کیسا اللہ کا نبی ہے جو اپنے آپ کو صرف نبی ہی نہیں بلکہ خاتم النبیین کہتا ہے اور اپنے بیٹے کی بیوی سے نکاح بھی کرتا ہے نبی اور خاص طور پر خاتم النبیین کا اخلاق ایسا کیسے ہو سکتا ہے”۔ تو اِس قسم کے اعتراض کا جواب پھر اللہ تعالیٰ نے یو ں دیا کہ “محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ (تو) نہیں ہیں بلکہ (وہ ضرور) اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں اور اللہ ہر چیز سے باخبر ہیں “۔ میرا کہنے کا مطلب ہے کہ اِسے مخاطبین کے سوال کا جواب سمجھا جائے تو پھر اِس کا موقع واضح ہو جاتا ہے لیکن وہ وضاحت جو غامدی صاحب نے کی ،صحیح محسوس نہیں ہوتی کہ چونکہ حضور ﷺ آخری نبی تھے اور انہوں نے ہی یہ کر کے دکھانا تھا اور اِسی لئے اللہ نے اُن کے خاتم النبیین ہونے کاذکر کیا۔ “وَلٰکِنۡ” میں واو عطف ہے اور اُس کے ساتھ “لیکن” معطو ف میں مزید تاکید پیدا کر رہا ہے۔
آیت ۳۷ میں جہاں اللہ تعالیٰ نے یہ کہا ہے کہ “ہم نے اُس کو تم سے بیاہ دیاتاکہ مسلمانوں پر اُن کے منہ بولے بیٹوں کے معاملے میں تنگی نہ ہو” تو یہ نتیجے کے اعتبار سے ہے۔ کہ بیشک جب اللہ کا آخری نبی کوئی کام خود کرے گا تو وہ مومنین کیلئے واضح حجت ہو گی۔ لیکن یہ کہنا کہ اللہ نے حضور ﷺ سے یہ کام اِس لئے کروایا کہ وہ آخری نبی ہیں اور کسی اور صحابی کے ذریعے یہ نہیں ہو سکتا تھا یا اللہ کے واضح الفاظ سے نہیں ہو سکتا تھا ، ٹھیک معلوم نہیں ہوتا۔
مہربانی فرما کر غامدی صاحب سے پوچھ لیجئے کہ میرا فہم درست ہے یا نہیں؟
Sponsor Ask Ghamidi