Ask Ghamidi

A Community Driven Discussion Portal
To Ask, Answer, Share And Learn

Forums Forums Sources of Islam Seal Of Prophets Ayat

  • Seal Of Prophets Ayat

    Posted by Ahraz Ahmad Atif on August 28, 2021 at 9:43 pm

    سورۃ الاحزاب کی آیت ۴۰ میں جب اللہ تعالیٰ یہ کہتے ہیں کہ “محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں بلکہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں اور اللہ ہر چیز سے باخبر ہیں” تو اِ س میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں حضور ﷺ کے خاتم النبیین ہونے کا ذکر کرنے کا موقع نہیں تھا۔ یہاں تو بات ہی کچھ اور ہو رہی تھی۔ اب اِس کی وضاحت مولانا امین احسن اصلاحی اور غامدی صاحب نے اِس طرح کی ہے کہ چونکہ وہ اللہ کے آخری نبی تھے اور اِس بات کو عملی طور پر انہوں نے ہی جائز ثابت کرنا تھا کہ آدمی کا اپنے منہ بولے بیٹے کی بیوی سے(اُن کی طلاق کے بعد) نکاح جائز ہے تو اِس لئے اللہ نے اُن کے خاتم النبین ہونے کا ذکر کیا ۔ یہ وضاحت پڑھ کر ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اصلاحی صاحب اور غامدی صاحب نے کلام کی مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایسی اور بھی بہت سی چیزیں کہی جا سکتی ہیں جن کی حرمت اور حلت کے معاملے میں اللہ تعالیٰ نے فتوے دیے ہیں لیکن وہ سب کچھ حضورﷺ سے نہیں کروایا گیا۔ یہ اگر حضور ﷺ کے اصحاب میں سے کوئی کرتا اور حضورﷺ ، اللہ کے حکم سے اُس کی توثیق فرما دیتے تب بھی یہ مومنین کیلئے جائز ہی ہوتا۔

    قرآن کے اِس مقام کی وضاحت کی اہمیت اس لئے ہے کہ یہ قرآن کا وہ واحد موقع ہے جہاں الفاظ میں حضورﷺ کے خاتم النبیین ہونے کا ذکر ہے اور اِس کا موقع و محل اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ اِس بارے میں ایک خیال غامدی صاحب کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے خطبات میں جب کبھی کوئی بات بے موقع و محل محسوس ہو یا ایسا لگے کہ کسی ایک مضمون کے بیچ میں کوئی بات ایسی آ گئی ہے جو پوری بات سے بظاہر مطابقت نہیں رکھتی تو وہ عموماً مخاطبین کی طرف سے کئے گئے کسی سوال کا جواب ہوتا ہے۔ اگر مندرجہ بالا آیت کو دیکھیں تو یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ حضور ﷺ کے حضرت زینب سے نکاح کی وجہ سے اِس طرح کی زبان درازی کی گئی ہو گی کہ “یہ کیسا اللہ کا نبی ہے جو اپنے آپ کو صرف نبی ہی نہیں بلکہ خاتم النبیین کہتا ہے اور اپنے بیٹے کی بیوی سے نکاح بھی کرتا ہے نبی اور خاص طور پر خاتم النبیین کا اخلاق ایسا کیسے ہو سکتا ہے”۔ تو اِس قسم کے اعتراض کا جواب پھر اللہ تعالیٰ نے یو ں دیا کہ “محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ (تو) نہیں ہیں بلکہ (وہ ضرور) اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں اور اللہ ہر چیز سے باخبر ہیں “۔ میرا کہنے کا مطلب ہے کہ اِسے مخاطبین کے سوال کا جواب سمجھا جائے تو پھر اِس کا موقع واضح ہو جاتا ہے لیکن وہ وضاحت جو غامدی صاحب نے کی ،صحیح محسوس نہیں ہوتی کہ چونکہ حضور ﷺ آخری نبی تھے اور انہوں نے ہی یہ کر کے دکھانا تھا اور اِسی لئے اللہ نے اُن کے خاتم النبیین ہونے کاذکر کیا۔ “وَلٰکِنۡ” میں واو عطف ہے اور اُس کے ساتھ “لیکن” معطو ف میں مزید تاکید پیدا کر رہا ہے۔

    آیت ۳۷ میں جہاں اللہ تعالیٰ نے یہ کہا ہے کہ “ہم نے اُس کو تم سے بیاہ دیاتاکہ مسلمانوں پر اُن کے منہ بولے بیٹوں کے معاملے میں تنگی نہ ہو” تو یہ نتیجے کے اعتبار سے ہے۔ کہ بیشک جب اللہ کا آخری نبی کوئی کام خود کرے گا تو وہ مومنین کیلئے واضح حجت ہو گی۔ لیکن یہ کہنا کہ اللہ نے حضور ﷺ سے یہ کام اِس لئے کروایا کہ وہ آخری نبی ہیں اور کسی اور صحابی کے ذریعے یہ نہیں ہو سکتا تھا یا اللہ کے واضح الفاظ سے نہیں ہو سکتا تھا ، ٹھیک معلوم نہیں ہوتا۔

    مہربانی فرما کر غامدی صاحب سے پوچھ لیجئے کہ میرا فہم درست ہے یا نہیں؟

    Dr. Irfan Shahzad replied 1 year, 8 months ago 3 Members · 3 Replies
  • 3 Replies
  • Dr. Irfan Shahzad

    Scholar August 30, 2021 at 9:54 pm

    قرآن مجید میں اس آیت کا سیاق و سباق دیکھیے۔ پیچھے یہ مذکور ہے کہ رسول اللہ حضرت زینب سے نکاح کے معاملے میں لوگوں کی طرف باتیں بنانے کا خدشہ رکھتے تھے۔ اس پر کہا گیا کہ اللہ کے رسولوں سے اللہ ایسے کام لیتا رہا ہے۔ یہ اللہ کی سنت ہے۔ اور اللہ کے یہ رسول اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تھے۔ اس کے بعد کہا گیا ہے کہ اول تو رسول پر اعتراض کی گنجائش نہیں تھی کہ محمد زید کے تو کیا کسی بھی مرد کے باپ نہیں اس لیے بہو سے شادی کا الزام ہی لغو ہے پھر کہا کہ آپ آخری نبی ہیں اس لیے یہ کام جو پہلے بھی رسولوں سے لیے گے اب آپ ہی کو انجام دینا ہے۔ی


    یوں نہیں ہے کہ یہ کام کوئی اور نہیں کر سکتا تھا بات یہ ہے کہ خدا خود کہہ رہا ہے کہ ایسے کام رسولوں سے کرایے جاتے ہیں اب آپ سے کرایا جا رہا ہے۔ نیز آپ کے ذریعے سے جو رواج ختم کرائے جاتے ہیں ان کی اپنی اہمیت ہے اس کا اثر مختلف ہوتا ہے نیز یہ معاملہ محض رواج ختم کرانے کا نہیں انسانوں کے الفاظ کو حقیقی رشتوں میں بدل دینے کے خدائی اختیار میں مداخلت کا جرم تھا۔

    • Tanveer Hussain

      Member August 21, 2022 at 12:53 am

      اگر یہ “خاتم النبیین” والی آیت صرف مونہہ بولے بیٹے کی بیوی سے نکاح کے حوالے سے آ گئی ہے اور اگر یہ معاملہ نہ ہوتا تو پھر قرآن مجید ختمِ نبوت کے تصور سے خالی ہوتا۔

      اس سے تو یہ لگتا ہے کی لازمی نہیں کہ تمام عقائد قرآن مجید میں آ گئے ہوں بلکہ ہمیں عقائد کے لیے احادیث کی طرف بھی دیکھنا چاہیے جیسے عذابِ قبر ، نزول مسیح وغیرہ

      کیونکہ سنت میں تو صرف اعمال ہی ہوتے ہیں۔

      عقائد قرآن مجید کے علاوہ تواتر امت یا اجماع امت یا احادیث کے ذریعے کیوں منتقل نہیں ہو سکتے۔

  • Dr. Irfan Shahzad

    Scholar August 21, 2022 at 1:12 am

    جو چیزیں بدیہی ہوتی ہیں قرآن انھیں بیان نہیں کرتا۔ ختم نبوت کے ذکر کی ضرورت نہیں تھی۔ انبیا جس مقصد کے لیے آتے ہیں وہ رسول اللہ کے ساتھ مکمل ہو چکا تھا۔ اس کی حفاظت کا ذمہ خدا نے لے لیا تھا۔ دوسری طرف خدا کا طریقہ یہ رہا کہ ہر آنے والے نبی کی آمد کی خبر پہلے دی جاتی تھی۔ قرآن اور رسول کی طرف سے کسی آنے والے کی خبر نہیں دی جا رہی تھی۔ یہ سب یہ بتانے کے لیے کافی تھا کہ اب کوئی نبی نہیں آنے والا۔ انبیا کا سلسلہ جاری کرنا ایسی کوئی ذمہ داری نہیں تھی کو خدا نے اپنے اوپر لی ہو جسے پورا کرنا خدا کے لیے ضروری تھا ۔ یہ خدا کی عنایت تھی کہ وہ نبی بھیج دیتا تھا۔ اگر بغیر اعلان کے بھی خدا انبیا کا سلسلہ روک دیتا تو اس سے مطالبہ نہیں کیا جا سکتا تھا کہ نبی بھیجے۔ مگر یہ بھی اس کی عنایت تھی کہ اس نے ہمیں اس آزمایش سے بھی بچا لیا اور بتا دیا کہ نبی نہیں آئیں گے۔

    عقائد کا معاملہ نازک ہوتا ہے اس لیے اسے قطعی ذرائع کے ذریعے ہی سے پیش کیا جاتا ہے۔

You must be logged in to reply.
Login | Register