Ameen Ahsan Islahi Sahab has already addressed this point in his Exegesis (please refer below):
Following is the translation and explanation by Ghamidi Sahab:
یَوۡمَ یُکۡشَفُ عَنۡ سَاقٍ وَّ یُدۡعَوۡنَ اِلَی السُّجُوۡدِ فَلَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ ﴿ۙ۴۲﴾ خَاشِعَۃً اَبۡصَارُہُمۡ تَرۡہَقُہُمۡ ذِلَّۃٌ ؕ وَ قَدۡ کَانُوۡا یُدۡعَوۡنَ اِلَی السُّجُوۡدِ وَ ہُمۡ سٰلِمُوۡنَ ﴿۴۳﴾
یہ اُس دن کو یاد رکھیں، جب بڑی ہلچل پڑے گی [46] اور یہ سجدے کے لیے بلائے جائیں گے تو سجدہ نہ کر سکیں [47] گے۔
اِن کی آنکھیں جھکی ہوں گی،اِن پر ذلت چھا رہی ہو گی۔ (یہ ظالم، اِن کی کمر تختہ ہو گئی)، یہ اُس وقت بھی سجدے کے لیے بلائے جاتے تھے، جب یہ بھلے چنگے تھے۔
(Quran 68:42-43)
__________________________________
[46] اصل الفاظ ہیں: ’یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ‘ (جس دن پنڈلی کھولی جائے گی)۔ یہ عربی زبان کا محاورہ ہے جس کے معنی سخت وقت آ پڑنے کے ہیں۔ اِس کے وجود میں آنے کی وجہ یہ ہوئی ہے کہ جب کوئی بڑی ہلچل پڑتی ہے تو شریف زادیاں بھی پائنچے اٹھا کر اِس طرح بھاگنے پر مجبور ہو جاتی ہیں کہ اُن کی پنڈلیاں کھل جاتی ہیں۔
[47] سجدہ کا یہ حکم اُنھیں اتمام حجت اور فضیحت کے لیے دیا جائے گا تاکہ اُن کی محرومی پر خود اُن کے وجود کی گواہی اِس طرح ثبت ہو جائے کہ وہ اِس کا انکار نہ کر سکیں۔
Explanation by Ameen Ahsan Islahi:
’کَشْف ساق‘ کا مفہوم: ’کَشْف ساق‘ شدت امر کی تعبیر کے لیے عربی زبان کا معروف محاورہ ہے۔ شعرائے جاہلیت نے مختلف طریقوں سے اس کو استعمال کیا ہے۔ حاتم کا مشہور شعر ہے:
اخوا لحرب ان عضّت بہ الحرب عضّھا وان شمرت عن ساقہا الحرب شمرا
(ممدوح جنگ کا مرد میدان ہے۔ اگر جنگ اس پر حملہ آور ہوتی ہے تو وہ بھی اس سے نبر آزما ہوتا ہے۔ اور اگر گھمسان کا رن پڑتا ہے تو وہ بھی اس میں بے خطر کود پڑتا ہے)۔
اس شعر میں گھمسان کے رن کے لیے ’شمرت عن ساقھا الحرب‘ کا محاورہ استعمال کیا ہے۔ شدت امر کی تعبیر کے لیے اس محاورے کے وجود میں آنے کی وجہ یہ ہوئی کہ جب کوئی بری ہلچل برپا ہوتی ہے تو اس وقت کنواریاں اور شریف زادیاں بھی اپنے پائنچے اٹھا کر بھاگنے پر مجبور ہوتی ہیں جس سے ان کی پنڈلیاں اور ان کے پاؤں کے زیورات کھل جاتے ہیں ۔ چنانچہ ایک شاعر کہتا ہے:
تذھل الشیخ عن بنیہ وتبدی عن خدام العقیلۃ العذراء
(ایسی ہلچل جو بوڑھوں کو ان کی اولاد سے غافل کر دے گی اور کنواریوں کی پنڈلیوں اور ان کی پازیبوں کو بے نقاب کر دے گی)۔
مطلب یہ ہوا کہ یہ لوگ تو یہ لذیذ خواب دیکھ رہے ہیں کہ جس عیش میں یہ یہاں ہیں اسی عیش میں وہاں بھی رہیں گے لیکن وہ دن بڑی ہلچل کا ہو گا۔ آج تو ان کو خدا کے آگے سربسجود ہونے کی دعوت دی جاتی ہے تو اکڑتے ہیں لیکن اس دن سجدے کو کہا جائے گا تو سجدہ کے لیے جھکنا چاہیں گے لیکن ان کی کمریں اس طرح تختہ بن جائیں گی کہ کوشش کے باوجود نہیں جھک سکیں گے۔ ان کی نگاہیں جھکی ہوئی ہوں گی اور ان کے اوپر ذلت چھائی ہوئی ہو گی۔ ان کا پورا سراپا ان کی ذلت اور بے بسی کی گواہی دے رہا ہو گا۔ سجدہ کا یہ حکم ظاہر ہے کہ محض اتمام حجت اور رسوا کرنے کے لیے دیا جائے گا کہ ان کی سرکشی اور ان کی محرومی پر خود ان کا وجود ایسی گواہی ثبت کر دے جس کا وہ انکار نہ کر سکیں گے۔ بعینہٖ یہی مضمون سورۂ معارج میں بدیں الفاظ میں بیان ہوا ہے:
یَوْمَ یَخْرُجُوْنَ مِنَ الْاَجْدَاثِ سِرَاعًا کَاَنَّہُمْ اِلٰی نُصُبٍ یُّوْفِضُوْنَ خَاشِعَۃً اَبْصَارُھُمْ تَرْھَقُہُمْ ذِلَّۃٌ ذٰلِکَ الْیَوْمُ الَّذِیْ کَانُوْا یُوْعَدُوْنَ.(المعارج ۷۰: ۴۳-۴۴) (جس دن کہ وہ قبروں سے نکلیں گے تیزی سے، گویا کہ وہ نشانوں کی طرف بھاگ رہے ہیں۔ ان کی نگاہیں جھکی ہوں گی اور ان پر ذلت چھائی ہوئی ہو گی۔ یہ وہ دن ہو گا جس کی ان کو دھمکی دی جا رہی ہے)۔
وہی مضمون جو سورۂ قلم میں ’یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ‘ کے الفاظ سے بیان ہوا ہے اس آیت میں ’یَوْمَ یَخْرُجُوْنَ مِنَ الْاَجْدَاثِ سِرَاعًا‘ کے الفاظ سے بیان ہوا ہے، اس طرح لغت اور نظیر قرآن دونوں سے اسی مطلب کی تائید ہوتی ہے۔ جو ہم نے لیا ہے۔ بعض لوگوں نے ایک روایت کی بنا پر اس کے معنی یہ بھی لیے ہیں کہ ’جس دن اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی کھولے گا‘ لیکن متعدد ائمۂ تفسیر سے وہی تاویل منقول ہوئی ہے جو ہم نے اختیار کی ہے۔ عکرمہؓ اور ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ ’ھُوَ یَوْمُ القیٰمۃ یوم کرب وشدۃ‘ (اس سے مراد قیامت کا دن ہے جو کرب و شدت کا دن ہو گا)۔ ابن جریرؒ نے ابن مسعودؓ یا ابن عباسؓ کے حوالہ سے کسی شاعر کا قول بھی مذکورہ معنی کی تائید میں نقل کیا ہے جس نے ’شالت الحرب عن ساق‘ کا محاورہ استعمال کیا ہے۔ مشہور امام تفسیر مجاہدؒ نے بھی اس کو شدت امر ہی کے مفہوم میں لیا ہے۔