Ask Ghamidi

A Community Driven Discussion Portal
To Ask, Answer, Share And Learn

Forums Forums Sources of Islam Quran 66:3 Explanation

Tagged: 

  • Quran 66:3 Explanation

    Posted by Rafi Sheikh on September 8, 2021 at 4:55 am

    Plz guide as to context. JazakAllah

    وَإِذۡ أَسَرَّ ٱلنَّبِیُّ إِلَىٰ بَعۡضِ أَزۡوَ ٰ⁠جِهِۦ حَدِیثࣰا فَلَمَّا نَبَّأَتۡ بِهِۦ وَأَظۡهَرَهُ ٱللَّهُ عَلَیۡهِ عَرَّفَ بَعۡضَهُۥ وَأَعۡرَضَ عَنۢ بَعۡضࣲۖ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِهِۦ قَالَتۡ مَنۡ أَنۢبَأَكَ هَـٰذَاۖ قَالَ نَبَّأَنِیَ ٱلۡعَلِیمُ ٱلۡخَبِیرُ ﴿ ٣ ﴾

    • ابوالاعلی مودودی:

    (اور یہ معاملہ بھی قابلِ توجہ ہے کہ) نبی نے ایک بات اپنی ایک بیوی سے راز میں کی تھی۔ پھر جب اُس بیوی نے (کسی اور پر) وہ راز ظاہر کر دیا، اور اللہ نے نبی کو اِس (افشائے راز) کی اطلاع دے دی ، تو نبی نے اس پر کسی حد تک (اُس بیوی کو) خبردار کیا اور کسی حد تک اس سے درگزر کیا۔ پھر جب نبی نے اُسے (افشائے راز کی) یہ بات بتائی تو اُس نے پوچھا آپ کو اِس کی کس نے خبر دی ؟ نبی نے کہا”مجھے اُس نے خبر دی جو سب کچھ جانتا ہے اور خوب باخبر ہے۔“ (3)

    At-Tahrim, Ayah 3

    Rafi Sheikh replied 2 years, 8 months ago 2 Members · 2 Replies
  • 2 Replies
  • Quran 66:3 Explanation

    Rafi Sheikh updated 2 years, 8 months ago 2 Members · 2 Replies
  • Haris Virk

    Moderator September 8, 2021 at 10:44 am

    Tafseer from Al-Bayan by Ghamidi sahab:
    یہ بات کیا تھی؟ اللہ تعالیٰ نے اِس کو پردے میں رکھا ہے۔ اِس وجہ سے ہمارے لیے بھی جائز نہیں ہے کہ ہم اِس راز کے درپے ہوں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
    ’’…حضور کی ازواج رضی اللہ عنہن ہمارے لیے ماؤں کی منزلت میں ہیں۔ بیٹوں کے لیے یہ بات کسی طرح پسندیدہ نہیں ہو سکتی کہ وہ اپنی ماؤں اور باپوں کے درمیان کے رازوں کے کھوج میں لگیں، بالخصوص جب کہ اِس راز کے انکشاف سے اِس آیت کے فہم میں کوئی مدد بھی نہ مل رہی ہو۔ یہاں راز کے افشا ہی پر تنبیہ فرمائی گئی ہے تو اگر ہم اُس کے درپے ہوں گے تو اِس کے معنی یہ ہوئے کہ جس چیز سے روکا گیا ہے ، ہم نے اُس کا ارتکاب کیا۔‘‘
    (تدبرقرآن ۸/ ۴۶۰)
    آگے کی آیات سے واضح ہے کہ ایک بیوی نے دوسری بیوی کو بات بتائی اور معاملہ ازواج مطہرات کے درمیان ہی رہا، کسی غیر کے سامنے کوئی افشاے راز نہیں ہوا۔32 یہ اِس لیے ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صرف ایک شوہر ہی نہیں، بلکہ اللہ کے رسول تھے۔ یہ کسی طرح مناسب نہیں تھا کہ جس بات کو آپ راز کہیں، اُسے گھر ہی میں سہی، لیکن کسی دوسرے کے سامنے افشا کر دیا جائے۔ اِس سے اندیشہ تھا کہ یہ کم زوری باقی رہی تو ایسا نہ ہو کہ کوئی ایسی بات کسی وقت کھول دی جائے جس سے اُس کارعظیم کو نقصان پہنچ سکتا ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انجام دے رہے تھے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے براہ راست توجہ دلائی اور لوگوں پر واضح کر دیا کہ حدودالٰہی کے معاملے میں کوئی بھی احتساب سے بالاتر نہیں ہے۔
    یعنی آپ نے احتساب تو فرمایا، اِس لیے کہ یہ دین کا تقاضا تھا، لیکن اتنا ہی جس سے تنبیہ ہو جائے۔ چنانچہ کچھ بات آپ نے ظاہر فرمائی اور کچھ نظر انداز کر دی تاکہ یہ تنبیہ اُن کے دل پر زیادہ شاق نہ گزرے۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ غلطی تو یقیناًہوئی تھی، مگر اِس میں کسی قسم کے فساد نیت کو دخل نہیں تھا۔ یہ محض اِس وجہ سے ہو گئی کہ اُنھوں نے گھر کی بات اپنے ہی گھر میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک محبوب بیوی کے سامنے ظاہر کر دینے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی۔
    اِس سوال کے انداز سے واضح ہے کہ اپنی فروگزاشت کی طرف متوجہ ہونے کے بجاے اُنھیں فکر یہ ہو گئی کہ یہ بات حضور کو بتائی کس نے؟ استاذ امام لکھتے ہیں:
    ’’…اُن کا ذہن اِسی طرف گیا ہو گا کہ جن بیوی کو اُنھوں نے رازدار بنایا تھا، اُنھی نے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دی۔ اِس طرف ذہن جانے کے لیے قرینہ موجود تھا، کیونکہ اُن کے سوا اُنھوں نے کسی اور پر یہ بات ظاہر نہیں کی تھی۔ ہو سکتا ہے اُنھیں کچھ غصہ بھی آیا ہو، جیسا کہ اُن کے انداز سوال ’مَنْ اَنْبَاَکَ‘ سے اشارہ ہوتا ہے۔ اگر ایسا ہوا ہو تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ کسی سے اپنے اعتماد کو ٹھیس پہنچے تو اُس سے رنج ہونا ایک قدرتی بات ہے۔‘‘ (تدبرقرآن۸/ ۴۶۲)
    35 نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتانے سے کہ مجھے خداے علیم و خبیر نے خبر دی ہے، اُن کی غلط فہمی تو دور ہو گئی، لیکن یہ گرفت دونوں بیویوں پر گراں گزری اور وہ حضور سے کچھ روٹھ سی گئیں۔ ایک اِس لیے کہ افشاے راز اگر ہوا تو دوسری بیوی ہی کے سامنے ہوا، اِس پر محاسبہ کیوں؟ اور دوسری اِس لیے کہ بات میرے ہی سامنے کی گئی تھی، کسی غیر کے سامنے نہیں، پھر عتاب کی کیا وجہ ہے؟ اِس کے معنی تو یہ ہوئے کہ مجھے غیر خیال کیا گیا ہے۔ اِس سے حضور کے خلاف دونوں میں ایک طرح کا ایکا بھی ہو گیا۔ آگے اِسی پر گرفت فرمائی ہے۔
    36 اصل الفاظ ہیں: ’اِنْ تَتُوْبَآ اِلَی اللّٰہِ، فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا‘۔مطلب یہ ہے کہ دونوں بیویاں اگرچہ روٹھی ہوئی تھیں، مگر یہ روٹھنا ازراہ تدلل اور اُس اعتماد کی بنا پر تھا جو بیوی کو شوہر کی محبت پر ہوتا ہے۔ اِس طرح کے روٹھنے میں خفگی محض ظاہر کا پردہ ہوتی ہے۔ اِس کے پیچھے یہ خواہش موجود ہوتی ہے کہ دوسری طرف سے ذرا ملاطفت کا اظہار ہو تو اندر سخت بے قراری ہے کہ جلد سے جلد ملاپ ہو جائے۔ یہ مدعا اُس ترجمے سے واضح ہوجاتا ہے جو ہم نے اوپر کیا ہے۔ ہمارے مفسرین سے اِس آیت کی تاویل میں سخت لغزش ہوئی ہے۔ ہم نے جو ترجمہ کیا ہے، اُس کے دلائل کوئی شخص اگر دیکھنا چاہے تو امام حمید الدین فراہی کی تفسیر سورۂ تحریم میں دیکھ لے سکتا ہے۔

  • Rafi Sheikh

    Member September 8, 2021 at 6:42 pm

    JazakAllah.

    نہایت عمدہ

You must be logged in to reply.
Login | Register