Ask Ghamidi

A Community Driven Discussion Portal
To Ask, Answer, Share And Learn

Forums Forums Sources of Islam Quran 30:30 – Two Interpretation Of Same Verse

Tagged: ,

  • Quran 30:30 – Two Interpretation Of Same Verse

    Posted by muhammad saad on October 6, 2021 at 11:05 am

    i am reading book of dr shahzad saleem about misconception about women.In article relating to facial hairs dr shahzad saleem mention the following verse “‘Stay on the nature created by Allah Almighty on which He created man. It is not appropriate to change the creation of Allah Almighty. ” 36:36 for changing appearance of human.but in the video i share below of dr shahzad saleem about tattoo dr shahzad saleem says this verse it related to polytheism.anyone clarify how there will be two interpretation of same verse.please explain it confusing ?

    reference:

    Stay on the nature created by Allah Almighty on which He created man. It is not appropriate to change the creation of Allah Almighty. ” 36:36

    Based on the principle mentioned in the above verse, the Prophet (peace and blessings of Allah be upon him) forbade many such things that were being done in his time. In other words, human nature and the physical constitution of man must be preserved in the same way as Allah Almighty has created it. Therefore, any change or modification in this structure is undesirable. However, there is a subtle difference between being beautiful and changing one’s makeup to satisfy one’s beauty. First of all, the satisfaction of the sense of beauty is allowed in Islam, while Allah Almighty does not allow change in His creation.

    video:

    i have pin pointed the relevant part of video

    https://www.youtube.com/watch?v=JsaBPRbh3_c&t=247s

    3:18 to 5:00

    Faraz Siddiqui replied 3 years, 2 months ago 4 Members · 8 Replies
  • 8 Replies
  • Quran 30:30 – Two Interpretation Of Same Verse

    Faraz Siddiqui updated 3 years, 2 months ago 4 Members · 8 Replies
  • Ahsan

    Moderator October 6, 2021 at 11:59 am

    The reference is not correct. it is surah rum verse 30.
    Ghamidi sb has translated this verse as
    یہ حقائق مبرہن ہو گئے )، سو ایک خدا کے ہو کر [135] تم (اپنے باپ ابراہیم کی طرح اب ) اپنا رخ اُس کے دین کی طرف کیے [136] رہو۔ تم اللہ کی بنائی ہوئی فطرت [137] کی پیروی کرو، (اے پیغمبر)، جس پر اُس نے لوگوں کو پیدا کیا [138] ہے۔ اللہ کی بنائی ہوئی اِس فطرت میں کوئی تبدیلی نہیں [139] ہو سکتی۔ یہی سیدھا دین [140] ہے، لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔

    Clearly, the ayah is about tawheed.
    I think you misunderstood this paragraph. Plz see this video from 5:02 to 9:24
    https://youtu.be/q4uz_DKHTG0?t=302

  • Faraz Siddiqui

    Member October 6, 2021 at 12:14 pm

    I think the correct reference in Surah Rome 30 (30:30)

    The whole verse is as follows

    So be steadfast in faith in all uprightness ˹O Prophet˺—the natural Way of Allah which He has instilled in ˹all˺ people. Let there be no change in this creation of Allah. That is the Straight Way, but most people do not know.

    This verse and the preceding sequence of verses talks about tauheed and give examples of how polytheism is so unnatural. Allah is referring to the fact that believing in 1 God is nothing but natural to human beings and this can not be changed

    It doesn’t talk about human body but it’s intellect or soul so to speak.

    This verse can not be taken for any kind of changes a person makes in his/her body. If this is true then how will we justify treating a child born with congenital heart defect or limb defect. We defer corrective surgery cuz this will alter “Allah’s creation” should we let children die or make some depressed forever??

    If u can share Shehzad sahab’s article then it would be helpful

  • muhammad saad

    Member October 6, 2021 at 10:14 pm

    چہرے کے بال اتارنے کی ممانعت

    حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے مندرجہ ذیل اثر کی بنیاد پر بالعموم یہ راے قائم کی گئی ہے کہ خواتین کے لیے اپنے چہرے کے بال اتارنے کی ممانعت ہے :

    عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: لَعَنَ اللّٰہُ الْوَاشِمَاتِ وَالْمُوْتَشِمَاتِ وَ الْمُتَنَمِّصَاتِ وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ الْمُغَیِّرَاتِ خَلْقَ اللّٰہِ فَبَلَغَ ذَالِکَ امْرَأَۃً مِنْ بَنِیْ أَسَدٍ یُقَالُ لَہَا أُمُّ یَعْقُوْبَ فَجَاءَ تْ فَقَالَتْ: إِنَّہُ بَلَغَنِیْ أَنَّکَ لَعَنْتَ کَیْتَ وَکَیْتَ؟ فَقَالَ: وَمَالِیْ لاَ أَلْعَنُ مَنْ لَعَنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَنْ ہُوَ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ؟ فَقَالَتْ: لَقَدْ قَرَأْتُ مَا بَیْنَ اللَّوْحَیْنِ فَمَا وَجَدْتُّ فِیْہِ مَا تَقُوْلُ، قَالَ: لَءِنْ کُنْتِ قَرَأْتِیہِ لَقَدْ وَجَدْتِّیْہِ، أَمَا قَرَأْتِ: ’’وَمَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا‘‘؟ قَالَتْ: بَلٰی، قَالَ: فَإِنَّہُ قَدْ نَہٰی عَنْہُ قَالَتْ: فَإِنِّیْ أَرٰی أَہْلَکَ یَفْعَلُوْنَہُ قَالَ: فَاذْہَبِیْ فَانْظُرِیْ فَذَہَبَتْ فَنَظَرَتْ فَلَمْ تَرَ مِنْ حَاجَتِہَا شَیْءًا فَقَالَ: لَوْ کَانَتْ کَذَالِکَ مَا جَامَعْتُہَا. (بخاری، رقم ۴۶۰۴)

    ’’حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں پر لعنت کی ہے جو گودتی ہیں، یعنی (tattoos) بناتی ہیں اور جو گدواتی ہیں اور ان عورتوں پر بھی لعنت کی ہے جو اپنی بھوؤں اور چہرے سے بال اکھڑواتی ہیں اور ان عورتوں پر بھی لعنت کی ہے جو اپنے دانتوں کے درمیان مصنوعی خلا پیدا کرتی ہیں تاکہ زیادہ خوب صورت دکھائی دیں جس کے نتیجے میں وہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی تخلیق میں تبدیلی کرتی ہیں۔ ان کی یہ بات بنی اسد کی ایک خاتون، جو ام یعقوب کہلاتی تھی، تک پہنچی تو وہ عبداللہ کے پاس آئی اور کہا: مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ تم نے فلاں اور فلاں قسم کی عورتوں پر لعنت بھیجی ہے؟ انھوں نے جواب دیا: میں ان پر لعنت کیوں نہ بھیجوں جن پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت بھیجی ہے اورجن پر اللہ تعالیٰ کی کتاب میں لعنت بھیجی گئی ہے؟ ام یعقوب نے کہا: میں نے پورا قرآن پڑھا ہے، لیکن تم جو بات کہہ رہے ہو، وہ میں نے کہیں نہیں پڑھی، حضرت عبداللہ نے کہا: اگر تم نے حقیقت میں قرآن پڑھا ہوتا تو تم اس میں ضرور اس حکم کو پاتیں (اور وہ حکم یہ ہے): ’’جو چیز رسول( صلی اللہ علیہ وسلم )تمھیں دے، وہ لے لو اور جس چیز سے منع کرے، اسے چھوڑ دو (الحشر۵۹:۷)۔‘‘اس نے کہا کہ ہاں ، یہ حکم تو میں نے پڑھا ہے، حضرت عبداللہ نے کہاکہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چیزوں سے منع فرمایا ہے۔ ام یعقوب نے کہا: لیکن میں نے تمھاری بیوی کو تو یہ کرتے دیکھا ہے، عبداللہ نے کہا : جاؤ اور جا کر اسے دیکھو، وہ گئی اور اسے دیکھا، لیکن اسے اپنے دعوی کے حق میں کوئی ثبوت نہ ملا، اس پر عبداللہ نے کہا : اگر میری بیوی ایسا کرتی جیسا کہ تم کہہ رہی ہو تو میں اسے چھوڑ دیتا۔‘‘

    کسی حدیث کو پڑھتے اور اس کو سمجھتے وقت ہمیں دو باتیں اپنے ذہن میں رکھنی چاہییں: پہلی بات یہ کہ جہاں تک ممکن ہوسکے اس خاص موضوع سے متعلق تمام احادیث کو اکٹھا کرنا چاہیے اور ان کا تجزیہ کرنا چاہیے تاکہ اس حدیث کا سیاق و سباق واضح ہو اور پوری تصویر سمجھ میں آجائے۔ دوسری بات یہ کہ تمام احادیث کی بنیاد قرآن و سنت میں ہونی چاہیے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی حدیث کو پرکھنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ اسلام کے ان دو بنیادی ماخذوں پر مبنی ہونی چاہیے۔ان کا مفہوم کبھی بھی قرآن اور سنت سے الگ کرکے نہیں سمجھنا چاہیے۔ اوپر مذکورہ حدیث پر ان اصولوں کا اطلاق کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس حدیث میں جن باتوں کا ذکر کیا گیا ہے، وہ ان باتوں میں سے چند ایک ہیں جو عرب خواتین کرتی تھیں۔ ان سے ان کی قدرت کی طرف سے دی گئی شکل وشباہت بالکل بدل جاتی اوراس طرح ان کی شکل وصورت کے بارے میں غلط تاثر ملتا اوردیکھنے والے کو دھوکا ہوتا۔اس حدیث کو اگر قرآن کی روشنی میں سمجھا جائے تو بات بالکل واضح ہوجائے گی۔ اس سلسلے میں سورۂ روم کی مندرجہ ذیل آیت ملاحظہ ہو:

    فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْْہَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ. (۳۰: ۳۰)

    ’’اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی اس فطرت پر رہو جس پر اس نے انسان کو بنایا۔ یہ مناسب نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی تخلیق میں تبدیلی کی جائے۔ ‘‘

    مندرجہ بالا آیت میں مذکور اصول کی بنیاد پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کی بہت سی باتوں سے منع فرمایا ہے جو آپ کے زمانے میں کی جارہی تھیں۔ دوسرے لفظوں میں فطرت انسانی اور انسان کی جسمانی ساخت کو اسی طرح محفوظ رہنا چاہیے، جس طرح اللہ تعالیٰ نے اسے تخلیق کیا ہے۔ لہٰذا اس ساخت میں کوئی بھی تبدیلی اور ترمیم ناپسندیدہ ہے۔ تاہم ایک بہت ہی باریک سا فرق اپنے حسن و جمال کی تسکین کے لیے خوب صورت بننے اور اپنی ساخت کو تبدیل کرنے میں ہے۔ پہلی بات، یعنی حس جمال کی تسکین کی اسلام میں اجازت ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ اپنی بنائی ہوئی تخلیق میں تبدیلی کی اجازت نہیں دیتا۔

    اس حدیث میں ایک اور بات کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے جو اس زمانے میں کی جاتی تھی جسے ’تنمّص‘ کہا جاتا تھا۔ اوپر حدیث میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس لفظ کا مطلب ہے کہ ماتھے پر اگے ہوئے فالتو بالوں کو ایک خاص انداز میں مونڈھ دیا جاتا تھا جس سے سر کے کچھ حصے پر بال ہوتے اور کچھ حصہ گنجا رہ جاتا۔ اسی چیز سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا، لیکن اوپر نقل کردہ اس حدیث میں اس کا ترجمہ چہرے سے بال صاف کرنا کیا گیا ہے، جبکہ ’تنمّص‘ کے یہ معنی نہیں ہیں، جیسا کہ ہم نے وضاحت کی کہ اس کا مطلب سر کے وہ بال جو پیشانی تک آئے ہوتے، انھیں ایک خاص انداز میں مونڈھنا ہے۲۴؂۔ اس تجزیے کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ چہرے پر جو بال اگ آتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اتارنے سے منع نہیں فرمایا۔ یہ حس جمال کی تسکین کے ضمن میں شمار ہوں گے اور اسلام جمالیات کو پسند کرتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تبدیلی کو پسند نہیں کرتا، اس لیے جو خواتین اپنے چہرے کی صفائی ستھرائی کے لیے یا بیماری کے حل کے لیے کچھ کرتی ہیں تو اس کی بالکل اجازت ہے۔

    _____

    ۲۴؂ لسان العرب، ابن منظور ۷/ ۱۰۱۔

  • muhammad saad

    Member October 7, 2021 at 12:38 am

    @Sid i have shared the article now please guide

    • Faraz Siddiqui

      Member October 7, 2021 at 2:05 pm

      thanks brother Saad

      the ayah is clear in its message and context, it is not related to physicality but spiritual nature

      Imam Islahi RA did have the opinion that brother Umer mentioned below. However, Imam Islahi RA didnt give any reason why he considered the ayah means “complete transformation from male to female or female to male” the specification of “complete transformation” doesn’t make sense because any change in tauheed makes it shirk so similarly any thing that resembles opposite sex should be prohibited and not limited to only complete transformation

      I do not understand the addition of sexual identity in this ayah’s interpretation. It would make more sense if we say the ayah prohibits any act that would resemble that of non-muslims or mushrikeen as this is against the nature of Allah’s creation or, in other words, it is against tauheed. Why relate this ayah to a person’s sex is not understandable to me.

      but it is also true that Imam Islahi RA and Shehzad Saleem are true scholars so you should hold their opinion and not mine

  • muhammad saad

    Member October 7, 2021 at 12:41 am

    @codename.AJK i have share the article .dr saab has quoted verse 30 of surah rum .brother please guide now?

  • Umer

    Moderator October 7, 2021 at 4:36 am

    Primarily it’s talking about ‘Monotheism‘, but it can also be extended to other matters of mutilating one’s nature (fitrat) physically e.g. adopting something which completely turns a male into a female and vice versa. This verse should also be seen in tandem with verse 119 of Chapter 4 . Following explanation of Ameen Ahsan Islahi sahab would be helpful in this regard:

    Discussion 53509 • Reply 53793

  • muhammad saad

    Member October 7, 2021 at 4:39 am

    thanks brother

You must be logged in to reply.
Login | Register