Ask Ghamidi

A Community Driven Discussion Portal
To Ask, Answer, Share And Learn

Forums Forums Epistemology and Philosophy Is Quran Really Word Of God

Tagged: ,

  • Is Quran Really Word Of God

    Umer updated 2 years, 4 months ago 4 Members · 8 Replies
  • Dr. Irfan Shahzad

    Scholar December 13, 2021 at 4:18 am

    The article of mine may help:

    قرآن کی بے شبہ محفوظیت: ایک تاریخی اور حسی حقیقت

    ۔۔۔۔

    ۲۰ جولائی ۱۹۶۹ء کو نیل آرمسٹرانگ (Neil Armstrong) نے چاند پر قدم رکھا۔ یہ واقعہ پوری دنیا کے انسانوں کو اس وقت کے دستیاب ذرائع ابلاغ کی سہولیات کے ساتھ دکھانے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ چنانچہ تما م دنیا نے اس کے وقوع پر اتفاق کیا۔ اس اتفاق راے کو مذہبی اصطلاح میں ’اجماع‘ کہتے ہیں۔ چنانچہ چاند سے انسان کے وصال پر اجماع ہوگیا۔ پھر یہ واقعہ دنیا بھر کے لوگوں نے رپورٹ کیا، اسے تواتر کہتے ہیں۔ یہ تواتر اگلی نسلوں کو منتقل ہوا اور آج ہمیں اس واقعہ کے وقوع پر ایسا یقین ہے، جیسے ہماری آنکھوں کے سامنے ہوا ہو۔

    آج کا انسان جب اس واقعہ کو سنتا، پڑھتا ہے تو کسی تفصیل و تفتیش میں پڑے بغیر اس پر یقین کرتا ہے، وجہ یہی کہ سبھی لوگ اس پر یقین کرتے ہیں، اسے بیان کرتے ہیں اور کتابوں میں یہ لکھا ہوا ملتا ہے۔ اس واقعہ کی سند نہیں مانگی جاتی کہ کس نے بتایا، کس کو بتایا، کتنے لوگوں نے بتایا، کس کتاب میں پہلی بار یہ لکھا ہوا ملتا ہے۔ اس پر یقین کی ابتدا آج کے علم و یقین سے ہوتی ہے۔ ماضی کے ایسے تمام واقعات کے بارے میں یہی کیا جاتا ہے۔ کوئی نہیں پوچھتا کہ کیا واقعی سکندر اعظم کوئی شخص تھا جس نے اپنے وقت کی معلوم دنیا کا آدھا حصہ فتح کر لیا تھا، جو ہندوستان اور پنجاب پر بھی حملہ آور ہوا تھا۔ اجماع و تواتر خود اپنی سند ہوتے ہیں۔ ان کی تصدیق کے لیے ان کی سند اور ڈاکیومنٹیشن کی بحث کرنا ایک غیرعلمی حرکت سمجھا جاتا ہے۔ سند اور ڈاکیومنٹیشن کی بحث اختلاف کی صورت میں اور تفصیلات کے حصول کے لیے کی جاتی ہے، اجماع و تواتر سے منتقل ہوئے نفس واقعہ کی تصدیق کے لیے نہیں۔

    اب تصویر کا دوسرا رخ دیکھیے۔ ایک طرف چاند پر انسان کی رسائی کے اس واقعہ پر ہمہ گیر اتفاق ہے، دوسری طرف ہمارے پاس ایسی اختلافی روایات بھی موجود ہیں جو بتاتی ہیں کہ کچھ لوگ اس وقوعہ پر یقین نہیں رکھتے۔ ایسے لوگ اس وقت بھی موجود تھے جنھوں نے اس واقعہ کو ڈراما قرار دیا۔ آج کا یا مستقبل کا کوئی ’’ذہین متشکک‘‘ اس واقعہ پرانسانوں کے اس ہمہ گیر اتفاق، یعنی اجماع و تواتر کو نظر انداز کر کے ان اختلافی روایات کی بنیاد پر یہ دعویٰ کر ڈالے کہ اس واقعہ پر اجماع و تواتر کا دعویٰ مشکوک ہے، اس پر ہمہ گیر اتفاق کی کوئی حقیقت نہیں اور ثبوت میں وہ بیانات، اخبارات کے کالمز، اور یوٹیوب پر موجود ویڈیوز کے حوالے دے، تو اس عبقریت پر جو جواب اسے ملنا چاہیے، معلوم ہے۔

    یہی معاملہ قرآن مجید کا ہے۔ یہ خدا کا کلام ہے یا نہیں، یہ زیر بحث نہیں، یہ مابعد الطبیعی دعویٰ ہے، جس کا تعلق موجودہ ذرائع علم کی بحث سے نہیں ہے۔ لیکن قرآن مجید کے ایک متن پر اِس وقت کے موجود مسلمانوں کا ہمہ گیر اتفاق ایک زندہ اور قابل مشاہدہ حقیقت ہے۔ قرآن مجید کے بارے میں دوسرا ہمہ گیر اتفاق اس پر ہے کہ یہ وہی کلام ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر ہوا تھا۔ آج کا یہ اجماع، بغیر تواتر کے ممکن نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ آج کے اس اجماع و تواتر کو مد نظر رکھا جائے گا اور کسی تفصیل میں پڑے بغیر، آنکھوں کے سامنے کھڑی اس حقیقت کو تسلیم کیا جائے گا کہ قرآن مجید کے متن پر کوئی اختلاف نہیں ہے اور اس کا انتساب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہونا بھی قطعی ہے۔

    اجماع و تواتر پر کسی فرد یا گروہ کا بس نہیں چلتا۔ نہ وہ اسے جاری کر سکتے ہیں، نہ روک سکتے ہیں۔ قرآن کے متن پر اتفاق اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں نہ ہوتا تو آیندہ یہ کبھی ممکن نہیں ہو سکتا تھا۔ اس وقت کسی فرد کو بالفرض اپنی کم علمی کی بنا پر قرآن کا کوئی لفظ یا سورت معلوم نہ تھی، تو یہ معاملہ فرد کا تھا جس سے اجماعی علم متاثر نہیں ہوتا۔ ایسے ہی جیسے ہمارے بچوں کو کوئی لفظ پڑھنا نہیں آتا یا انھیں کسی سورت کا علم نہیں ہوتا، یا یہ انھیں معلوم نہیں ہوتا جنھوں نے قرآن نہیں پڑھا ہوتا۔ اس سے قرآن پر مسلمانوں کا اجماع و تواتر متاثر نہیں ہوتے، فرد ہی سے کہا جائے گا کہ اپنا علم اجماع و تواتر کے مطابق درست کرے۔

    قرآن پر اجماع اور اس کے تواتر کی بنا پر سند کی بحث نہیں کی جاتی کہ اسے کس نے لکھا، کس کو لکھوایا، کس نے محفوظ کیا، کس نے پھیلایا۔ یہ انفرادی کام نہیں تھا۔ یہ کام پوری امت نے دوسری نسل کے لیے کیا اور انھوں نے آیندہ نسل کے لیے اور یوں سلسلہ چلتا رہا، بالکل ایسے ہی، جیسے آج کے مسلمان کرتے ہیں۔ سبھی اپنے بچوں کو ایک ہی قرآن پڑھاتے ہیں اور وہ اپنے بچوں کو پڑھاتے ہیں۔ علما اس کا درس دیتے ہیں۔ مفسرین تفسیریں لکھتے ہیں۔ فقہا اس سے مسائل اخذ کرتے ہیں۔ ہر مسلمان اس سے کسی نہ کسی درجے میں جڑا ہوتا ہے۔

    یہی وجہ ہے کہ ڈاکیومنٹیشن کی بحث بھی قرآن کے بارے میں نہیں کی جا سکتی کہ قرآ ن کا سب سے قدیم نسخہ کون سا ہے، یہ بحث ان متون کے بارے میں کی جاتی ہے جن پر اختلاف ہوتا ہے یا وہ جو پہلی دفعہ دریافت ہوتے ہیں۔ مسلمانوں نے قرآن کے قدیم نسخے سنبھالنے کی کوئی ذمہ داری اٹھا نہیں رکھی تھی۔ قدیم نسخے وہ کیوں سنبھالتے، جب کہ ہر لمحہ تازہ نسخے تیار ہوتے رہتے تھے۔

    اب اس ہمہ گیر اتفاق یا اجماع و تواتر کے مقابل ہمارے پاس چند اخبار آحاد ہیں جو بتاتی ہیں کہ قرآن کے متن میں اختلاف تھا اور ہے۔ یہ تاریخی لٹریچر میں اخبار آحاد کی شکل میں موجود ہیں، یعنی کچھ لوگ یہ کہتے تھے، مگر امت کے اجماع و تواتر پر ان روایات نے کبھی کوئی اثر پیدا نہیں کیا۔ مسلمان کبھی کنفیوز نہ ہوئے کہ اجماعی قرآن کے مقابلے میں یہ کہانیاں کیا کہتی ہیں۔ قرآن کا اجماع و تواتر بغیر کسی تردد کے ہمیں آج منتقل ہو گیا۔

    قرآن مجید کے متن کی محفوظیت کے معاملے میں سب سے زیادہ متہم اہل تشیع ہیں۔ ان کے لٹریچر میں ایسی روایات موجود ہیں کہ قرآن بدلا گیا، اس میں تحریف کی گئی، مگر خود اہل تشیع کے مین اسٹریم، یعنی جمہور اہل علم اور عوام نے قرآن کے متن کی محفوظیت کے خلاف ان روایات کو تسلیم نہیں کیا، انھیں رد کیا یا ان کی تاویل کی۔ شیعہ امت کا بھی یہی حال ہے کہ وہ ہمیشہ سے اسی طرح اپنے بچوں کو پڑھاتے اور حفظ کراتے آ رہے ہیں، جیسے باقی مسلمان کرتے ہیں۔ ان کے علما فقہا اس سے ہمیشہ منسلک رہے اور درس دیتے رہے، تفاسیر لکھتے رہے، بلکہ اہل تشیع میں قرآن کے حفظ کو ایک مزید حیرت انگیز طریقہ سے کرنے کا رواج ہے اور وہ یہ کہ وہ ترجمہ کے ساتھ حفظ کراتے ہیں، بچے کو ہر آیت کا نمبر، جس صفحہ پر آیت ہو، اس کا صفحہ نمبر تک یاد کرایا جاتا ہے، یہاں تک کہ آپ انھیں یہ بتائیں کہ فلاں صفحہ پر فلاں نمبر آیت کون سی ہے تو وہ یہ بھی بتا دیں گے۔ جامعہ کوثر اسلام آباد میں یہ تجربہ راقم نے خود کیا تھا۔ جس کو تصدیق کرنا ہو، وہ جامعہ کوثر جا کر ان بچوں سے مل سکتا ہے۔

    سوال یہ ہے کہ قرآن مجید کے اجماع و تواتر کے باوجود اس کے متن کی محفوظیت پر شکوک کا اظہار کرنے والا ’’جری‘‘ ذہن، قرآن کے متن کے بارے میں اختلاف بیان کرنے والی ان روایات پر شکوک کا اظہار کیوں نہیں کرتا جو خود مشکوک ہیں؟ یہ افواہ چھوڑ دینا کسی کے لیے کیا مشکل تھا کہ قرآن کے متن پر اتفاق نہیں تھا، یا قرآن کے کسی لفظ کے پڑھنے میں کچھ لوگوں میں اختلاف ہوا تھا، یا یہ کہ فلاں سورت کی جگہ یہ نہیں کوئی اور تھی، یا یہ کہ ایک خلیفہ نے قرآن کے سارے نسخے جلا کر سب کو قرآن کی ایک قراءت پر اکٹھا کیا تھا، یا یہ کہ عراق کے ایک گورنر نے قرآن میں گیارہ مقامات میں تبدیلی کرا دی تھی۔ جس حوصلے کے ساتھ قرآن کے اجماع و تواتر کے خلاف ایک غیر علمی موقف اپنانے کی جلدی کی گئی ہے، اسی حوصلے سے ان روایات پر تنقیدی نظر ڈالنے سے گریز کیوں کیا گیا ہے؟ وہ جو قرآن کے ساتھ احادیث کے ذخیرے ہی کو معتبر تسلیم نہیں کرتے، ان روایات کو کیوں تسلیم کرتے ہیں؟ اسی تنقیدی ذہن سے یہ کیوں نہیں پوچھتے کہ کیا وجہ ہے کہ اس ایک خلیفہ کی ایک قرآن پر امت کو جمع کرنے والی روایت کا مدار صرف ایک شخص ــــــ شہاب الدین زہری ــــــ پر کیوں ہے، جب کہ یہ واقعہ پورے عالم اسلام میں ایک ہمہ گیر آپریشن کا ہے، جسے ان گنت لوگوں کو بیان کرنا چاہیے تھا۔ یہ واقعہ تو تواتر سے بیان ہونا چاہیے تھا، مگر ایسا نہیں ہے۔ کیا محض یہی بات اس کہانی کو مشکوک نہیں بنا دیتی؟

    پھر اسی کہانی میں یہ بیان کہ قرآن کے متن کو بغیر اعراب اور نقطوں کے لکھا گیا تھا، اس سے ایک قراءت پر جمع ہونے میں کیا مدد مل سکتی تھی؟

    ان روایات پر وہ ’’ذہانت‘‘، (اگر اسے ذہانت کہا جا سکے)، کیوں نہیں آزمائی گئی جس کے ذریعے سے قرآن کے ایک متن پر ہمہ گیر اتفاق جیسی حقیقت کو نظر انداز کرنے کا کارنامہ سر انجام دے دیا گیا؟

    ایک طرف اجماع و تواتر ہیں جو ان کے نزدیک مشکوک ہیں اور دوسری طرف مشکوک روایات ہیں جو ان کے نزدیک معتبر ہیں۔ اس رویے کو کیا نام دینا چاہیے؟ کسی بھی معیار سے یہ علمی رویہ بہرحال نہیں ہے۔

    قرآن مجید کے خدا کا کلام ہونے یا نہ ہونے کی بحث تو کی جا سکتی ہے، مگر اس کے واحد متن کی محفوظیت پر اعتراض محض علمی غلطی ہی نہیں، بلکہ غیر علمی حرکت ہے۔

    دوسری بات یہ کہ یہ کہنا کہ قرآن کے علاوہ بھی ماضی کی بعض کتب کا ایک ہی متن اور ایک ہی ورژن محفوظ رہا ہے، اس لیے قرآن کے متن کا محفوظ رہ جانا کوئی معجزہ نہیں، چند بنیادی باتوں کو نظر انداز کیے بنا ممکن نہیں۔ قرآن اور دیگر محفوظ کتب کی محفوظیت میں فرق ہے۔

    پہلا یہ کہ ان کتب کے متن کا محفوظ رہ جانا اتفاقی امر ہے۔ اس کا دعویٰ نہیں کیا گیا تھا کہ ایسا ہوگا، جب کہ قرآن مجید نے خود یہ دعویٰ کیا تھا کہ یہ محفوظ رہے گا، اور یہ دعویٰ تب کیا گیا جب متن کے محفوظ رہ جانے کے وسائل دستیاب نہ تھے۔ چنانچہ اس کے متن کی حفاظت باقاعدہ منصوبے اور دعویٰ کا نتیجہ ہے۔ کیا یہ دعویٰ اور یہ نتیجہ کسی دیانت دار ذہن کو اپیل نہیں کرتا؟ یہ حقیقت اگر کسی ذہن کو متاثر نہیں کرتی تو یہ ذہن دیانت دار نہیں کہا جا سکتا۔ یہ متعصب ذہن ہے جس کا علاج خود اس کے سوا کسی کے پاس نہیں۔

    دوسرا فرق یہ ہے کہ کیا اُن محفوظ رہ جانے والی کتب کے مصنفین سے ان کتب کا انتساب بھی اتنا ہی محفوظ اور قطعی ہے، جتنا قرآن کا انتساب اپنے مصدر (دنیا میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) سے؟ علم و دیانت کو اس سوال کا جواب بھی معلوم ہے۔

  • Ahmad Zia Jamili

    Member December 13, 2021 at 1:30 pm

    Thank you so much Dr. Shahzad Sb, for very comprehensive article,

    Could you please elaborate why Sir. Ghamidi do not accept Ijma (جمهور علما کی آراء) on understanding of Quran (فهم قران).

    Regards,

  • Dr. Irfan Shahzad

    Scholar December 15, 2021 at 12:32 am

    Also this article of mine, which more directly responds to your first question.

    ..

    یمان بالغیب کا راستہ: تسلیم، مشاہدہ یا استدلال

    انسان کے پاس حصول علم کے دو ذرائع ہیں: تجربہ و مشاہدہ اور عقلی استدلال۔ عقل، تجربہ و مشاہدہ کے ذریعے سے حاصل ہونے والے معلوم سے نامعلوم پر استدلال کرتی ہے۔ ثابت شدہ کی بنیاد پر غیر ثابت کو استدلال و استنباط کے طریقے سے پہلے مفروض کرتی اور پھر دستیاب شواہد کی بنیاد پر استدلال سے اس کا اثبات کرتی ہے۔ ممکن ہو تو تجربے اور مشاہدہ سے حاصل شدہ معلومات کی بنیاد پر مستنبط کو تجربے کے ذریعے سے شہود کی سطح پر ثابت بھی کر دکھایا جاتا ہے۔

    انسان کے پاس حصول علم کےیہی قابل اعتماد ذرائع ہیں۔ چنانچہ نامعلوم کو تجربہ و مشاہدہ کی سہولت کی عدم دستیابی کی صورت میں استقراء اور استنباط کے ذریعے سے استدلال کے طریقے پرثابت کرنا یا کم از کم اس کے امکانِ وجود پر استدلال کرنا ایک مسلمہ علمی طریقہء کار ہے۔

    مثلاً، جراثیم کا وجود ان کے مشاہدہ سے پہلے ان کے آثار وشواہد کی بنا پر سمجھ لیا گیا تھا۔ بیماریاں جس طرح پھیلتی اور اشیاء اور زخم جس طرح خراب ہوتے تھے، اطبا اور سائنس دان اس پر استدلال کر رہے تھے کہ کوئی زہریلی ہوا یا مواد اس معاملے میں ملوث ہے، جو نمی کی موجودگی میں زیادہ اثر دکھاتا ہے۔ اس کی جستجو نے انھیں بالآخر جراثیم کا مشاہدہ کرا دیا۔

    اسی طرح بگ بینگ کا امکانِ وقوع،جس کا مشاہدہ ممکن ہی نہیں کہ وہ ماضی کا واقعہ تھا، کائنات میں پھیلے اس کے شواہد و آثار اور کچھ تجربات کی شہادتوں کی بنا پر سائنس کی دنیا میں ایک قطعی حقیقت کے طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے۔ بگ بینگ کے عدم مشاہدہ کی طرح ہی جراثیم کے مشاہدہ کی اہلیت اگر اب تک یا کبھی بھی حاصل نہ ہو سکتی، تو بھی استدلال کے بل بوتے پر ان کے وجود کو تسلیم کرنا ہی عقلی اقتضا تھا۔

    ایمان بالغیب کے لیے یہی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ تجربہ و مشاہدہ کے ذریعے سے دستیاب معلومات و شواہد کی بنا پر غیب کے بارے میں مذہب کی بتائی گئی معلومات کی بنا پر اس کے امکان وجود کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے دو چیزیں ضروری ہیں:

    مذہب کی خبر اپنی مصدر سے قطعی اور مستند استناد رکھتی ہو۔

    مذہب کے استدلال میں کوئی علمی جھول نہ ہو۔

    مذہب کا مقدمہ پیش کرنے کے لیے ہم نے قرآن کا انتخاب کیا ہے جس کا دعوی ہے کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ہمیں غیب کی باتیں بتاتا ہے۔ عالم غیب یا مابعد الطبیعیاتی دنیا سے آنے کے دعوی کے ساتھ یہ واحد حسی شاہد ہے ہمارے سامنے ہے جو اپنے مصدر (محمد رسول اللہ ﷺ) سے ناقابل تردید استناد اور انتساب رکھتا ہے۔ عالم غیب پر یقین کرنے اور اس دنیا میں علم کی راہ سے جھانکنے کا یہی ایک ذریعہ انسان کو دستیاب ہے۔ یہ اگر اپنے وجود سے غیر انسانی اور مافوق البشر کلام ثابت ہوتا ہے تو مذہب کا مقدمہ قائم ہوگا ورنہ مجہول دعاوی کی طرح رد ہو جائے گا۔

    اس وقت الہامی صحائف کا دعوی رکھنے والی کتب میں قرآن کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ دنیا میں اس کے ماخذ اوّل (محمد رسول اللہ ﷺ) سے اس کے صدور سے لے کر مسلمانوں کی نسلوں کو اس کی محفوظ منتقلی ایک تاریخی اور زندہ حقیقت ہے۔ساری دنیا کے مسلمانوں کے پاس جو کتاب قرآن مجید کے نام سے موجود ہے اس کے کسی حرف و حرکت میں کسی ادنی اختلاف کے بغیر ان کا اتفاق آنکھوں کے سامنے کھڑی زندہ حقیقت ہے، جو اس کے مسلسل محفوظ انتقال کا حسی شاہد ہے۔ اس کی مسلسل محفوظ منتقلی کے لیے مسلمانوں کے اجتماعی حافظے کو بنیاد بنایا گیا تھا جسے پھر کتاب کی صورت میں محفوظ کر لیا گیا جس کے بعد اس کے معدوم ہونے کا امکان ختم ہوگیا۔ چنانچہ یہ ایک نسل سے دوسری نسل کو بغیر کسی ادنی اختلاف اور تغیر لفظی کے منتقل ہو تا چلا آتا ہے۔ اس حقیقت کا انکار عقل و استدلال سے عاری ہوئے بنا ممکن نہیں۔قرآن میں یہ دعوی کیا گیا تھا کہ یہ ہمیشہ محفوظ رہے گا۔ اس لیے اس کی یہ حفاظت کوئی امر اتفاقی نہیں، بلکہ حفاظت کے دعوی کے نتیجے کے طور پر یہ معجزہ انسانی دنیامیں برپا کر کے دکھایا گیا ہے۔ اس دعوی کی صداقت اس کلام کے من جانب اللہ ہونے کے دعوی پر دلالت کرتی اور دعوتِ توجہ دیتی ہے۔

    دوسرے یہ کہ اپنے علمی چیلنجز میں یہ اب تک غلط ثابت نہیں ہوا۔ صدیوں سے یہ اپنے اس چیلنج کے ساتھ موجود ہے کہ اس کے مماثل کوئی کتاب نہیں لائی جا سکے گی، چنانچہ اس کے متعلق پوری تاریخ میں اس کے مماثل کوئی ایسا کلام پیش نہ کیا جاسکا، جسے اہل علم و زبان، خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم، نے قرآ ن کا مماثل مان لیا ہو ۔

    تیسرے یہ کہ اس کی تمام پیشین گوئیاں درست ثابت ہوئیں۔ یہ پیشین گوئیاں غیر مبہم اور ایک سے زائد تاویلات اور احتمالات نہیں رکھتیں تھیں، بلکہ صاف صاف اپنے مدعا پر دلالت کرتی ہیں۔

    چوتھے یہ کہ اس کا دعوی ہے کہ اس میں کوئی اختلاف تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ انسانی عقل صدیوں سے اسے محل تدبر و تنقید ر بنانے کے باوجود اس میں کوئی ایسا اختلاف تلاش کرنے میں اب تک ناکام ہے جسے مسلمہ غلطی یا مسلمہ اختلاف کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہو اور عقل اسے تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئی ہو۔ اب تک جتنے بھی اختلافات کے نکات پیش کیے گئے وہ پیش کاروں کی غلط فہمی کا نتیجہ ثابت ہوئے ہیں۔ کہیں وہ زبان و بیان کے اسالیب اور لطافتوں کو نہیں سمجھ پائے تو کہیں قرآن کےاستدلال پر توجہ کرنے سے قاصر رہے تو کہیں تفسیری اقوال جیسی خارجی بنیاد پر معترض ہوئے جس کی کوئی ذمہ داری قرآن پر عائد نہیں ہوتی۔

    پانچویں یہ کہ دنیا میں قرآن کو پیش کرنے والے شخص، حضرت محمد ﷺ کےہاں اس قرآن کے طرز بیان اور اس میں دی گئی معلومات کے لیے اخذ و استفادہ اور اس جیسے بیان و تقریر کا کوئی رجحان اس کلام کے ظاہر ہونے سے پہلے نہیں دیکھا گیا۔ آپ کا اپنا کلام قرآن سے بالکل مختلف رہا۔ بغیر کسی پیشگی تربیت اور مشق کے، اس کلام کی یک دم پیش کاری ایک غیرانسانی واقعہ ہے، اور اس کی کوئی معقول توجیہ نہ آپ کے ہم عصر کر سکے اور نہ کی جا سکتی ہے۔

    قرآن میں پیش کی گئی گزشتہ آسمانی کتب کی معلومات سے اخذ و اکتساب کا کوئی شائبہ بھی قرآن کے نزول سے پہلے آپؐ کے ہاں نہیں ملتا۔ یکایک آپؐ گزشتہ آسمانی کتب کی معلومات پر مشتمل کلام بیان کر نے لگے۔ یہ بڑی قوت و اعتمادسے گزشتہ آسمانی کتب اور اقوام خصوصاً، بنی اسرائیل کی تاریخ نہ صرف بیان کرتا بلکہ اس پر تبصرے اور تنقید کرتا ہے۔ قرآن مجید کےان تاریخی بیانات میں کوئی غلطی نہیں پائی گئی۔ بلکہ یہ ان کی معلومات میں اضافہ ہی کرتا ہے۔ قدیم صحائف میں جن مبینہ غلطیوں کی نشان دہی کی گئی ہے وہ بذات خود غلط ثابت ہو چکی ہیں۔

    قرآن انسانی تصانیف کی تمام کمزوریوں سے مبرا ہے۔ یہ دو دہائیوں سے زائد کی مدت میں اجزا کی صورت میں نازل ہوا ہے، لیکن اس میں انسانی علم اور فکر کا ارتقا نہیں ہے۔ اپنے جن مقدمات اور استدلالات اور مضامین کے ساتھ اس نے روز اول سے کلام کیا وہ سب تقریبا 23 سال کی مدت نزول میں آخر تک یکساں رہے۔ اس میں رسول اللہ ﷺ کے اپنے ذاتی جذبات اور احساسات کی کوئی عکاسی نہیں ہے جن سے بحیثیت بشر آپ خالی نہیں تھے اور جن کا اظہار آپ کے اپنے کلام میں نظر آتا ہے۔ یہ ایک حیرت انگیز وصف ہے جو کسی انسانی تصنیف میں ملنا ممکن نہیں جس کی تدوین میں دو دہائیوں سے زائد عرصہ لگا۔ کسی بھی فلسفی، شاعر، ادیب، مفکر کی تحریریں دیکھیں، ان کےاوائل اور اواخر کے ادوار میں سوچ کا ارتقا صاف نظر آئے گا۔ مگر قرآن میں یہ عنقا ہے۔

    مزید یہ کہ قرآن کے الفاظ ہی نہیں، اس کی زبان کو بھی محفوظ کیا گیا۔ یہ واحد زبان ہے جو صدیوں بعد بھی مردہ یا اجنبی نہ ہوسکی۔ زبانوں کے جبری ارتقا میں یہ مظہر ایک استثنا کے طور پر موجود اورعوت فکر دیتا ہے۔

    یہ معجز کلام ایک ایسے شخص سے صادر ہوا جس کا علمی رجحان نہیں تھا۔ اس نے کبھی شعر و ادب میں بھی کوئی تخلیق نہیں کی تھی۔ علم و ادب کی کوئی مشق بہم نہی پہنچائی تھی۔ پھر اچانک پختہ عمر میں اس نے یہ کلام پیش کردیا۔ جس کی نظیر علم اور ادب دونوں میدانوں میں بے نظیر رہی۔

    قرآن، غیب پر ایمان لانے کا حسی شاہد ہے۔ علم و عقل کی سان پر اسے پرکھا جائے۔ اگر یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ انسانی کلام نہیں تو اس کا یہ دعوی سچا ماننا پڑے گا کہ یہ خدا کا کلام ہے جو اس کا پیش کار ہونے کا دعوی کرتا ہے اور جو کچھ اس میں بیان کیا گیا ہے وہ حقیقت ہے۔ ممکن ہے کسی کو اس میں موجود کوئی بات پسند نہ آئے، مگر اس کے حقائق کا جھٹلانا عقل و استدلال کے لیے ممکن نہیں۔

  • Dr. Irfan Shahzad

    Scholar December 15, 2021 at 12:35 am

    Ijma itself is no authority. Ijma depends upon some Daleel. So the importance is Daleel. if Daleel is good, Ijma is accepted. It is possible that collective wisdom may be mistaken.

  • Ahmad Zia Jamili

    Member December 15, 2021 at 4:25 am

    A very comprehensive article, thank you so much for your time and efforts May Allah Grant You with Ajre Azeem

  • Nadeem Minhas

    Member December 16, 2021 at 9:03 am

    @Irfan76 Brother Irfan. Is the above article available in English? Please refer me to the link.

  • Nadeem Minhas

    Member December 16, 2021 at 10:36 am

    I am a student of Islam and I totally agree with Ghamidi Sahib’s approach. Still, there is another approach that I and many other found to be a proof that Quran is Allah’s word.

    Even non-Muslims agree that Quran is authentic for at least 1200 years. Then how is it possible that it contains amazing scientific facts that only a creator of the universe could know. Some critics state that those were copied from some previous knowledge from Greeks, but they fail to prove that for all the scientific facts in Quran. Also, they fail to answer why only correct science is written in Quran. Why not incorrect scient and myths got into Quran if the Quran was copied from another book. Did prophet sent 1000s of people around the world and collect all the science and then had all the knowledge verified before writing it into Quran. It doesn’t make sense.

    How is this possible 1400 years ago? .

    1. Big Bang: The heaven and the earth used to be one solid mass that we exploded into existence and from water all living things were created 21:30

    2. Expansion of universe 51:47

    ————————-

    1. Sun expansion to near earth orbit and merging with moon and sun is rolled 75:5-10, 81:1

    2. Earth spewing lava and oceans aflame 81:2, 99:2

    3. There will be severe Earthquakes 56:4, 99:1

    4. Mountains will be flying like fluffy wool and turning into dust 18:47, 19:90, 20:105-107, 69:14, 73:14, 77:10, 78:20, 101:5

    5. Stars will lose their light and crash into each other 77:8, 81:2,

    6. Sky will turn to rose color 55:37

    7. Sky will violently shake and thunder and rupture/crack will appear 52:9, 77:9, 84:1, 55:37

    8. Clouds of dust/smoke visible on the sky 44:10, 52:44

    9. Universe will be rolled to an end (big crunch) and then bounce back to a new universe, with a new Earth 14:48, 21:104

    End of Universe https://youtu.be/pEYJdyNsEXo

    ————————————————-

    How is this possible! How a certified authentic book narrated by an illiterate person 1400 years ago states that…

    1. The universe came into existence from a single unified mass (21:30)

    2. Initially the universe was just gas, smoke or dust (41:11)

    3. The universe is expanding (51:47)

    10. States that all heavenly bodies are rotating and orbiting and heading in certain direction (21:33), (39:5), (13:2), (31:29), (36:40), (81:16)

    14. The Sun produces light and the Moon reflects light (10:5), (25:61), (71:16), (78:13)

    15. All life is created from water (24:45) , (25:54)

    16. The Earth is egg shaped (79:30)

    17. Humans are created like plants from water, dust and aged mud (6:2), (15:26), (15:28), (23:12), (25:54),(30:20), (32:7), (35:11), (38:71), (40:67), (55:14) (71:17)

    18. People in the past lived as long as 950 years (29:14)

    19. At one time the whole Earth was covered with water (11:7)

    20. The mountains are not stationary, but moving like clouds (27:88)

    22. Gives us a proof that two types of waters do not mix (27:61)

    24. The Sun and Moon and heavenly bodies will expire after the designated duration (30:8), (39:5), (46:3)

    27. Predicts Egyptian pharaoh body will be preserved as long as humans are around. Currently it is preserved and displayed in Egyptian Museum (10:90-92)

    29. The word “Sea” (water) and “Land” (Dry Land) is exactly repeated with the same ratio as water and dry land on this Earth (71.11% water to 28.889 land)

    32. Gives exact and accurate details of child development in womb starting from inception, (22:5), (23:13-14), (32:8-9), (35:11), (40:67) (75:36-39), (76:1-2), (77:20-23), (86:6-7), (96:2)

    33. All fruits are created in pairs (13:3)

    34. There is no person in this World with two hearts (33:4)

    35. Refers to the frontal lobe of brain as responsible for thinking and decision making (96:15,16)

    36. How all worker bees are females (16:68-69)

    37. Describes uniqueness of human fingerprints (75:3-5)

    38. Plate tectonics is described with the movement of mountains like clouds (15:19), (16:15), (21:31), (27:88), (41:10), (78:7),

    Authentic message of guidance, directly from Allah (God). Translation of all verses of Quran on Specific Topics.

    https://youtube.com/channel/UCpYVrBK9H2MkLQj2YZiRVqA

  • Umer

    Moderator December 16, 2021 at 3:00 pm

    You may also want to refer to Zaviya-e-Ghamidi Series to understand Ghamidi Sahab’s take on this matter in a comprehensive manner:

    Discussion 1630 • Reply 4940

You must be logged in to reply.
Login | Register