Ask Ghamidi

A Community Driven Discussion Portal
To Ask, Answer, Share And Learn

Forums Forums Islamic Sharia شادی شدہ زانی کی سزا

  • شادی شدہ زانی کی سزا

    Posted by Zarrar Butt on January 19, 2022 at 2:23 am

    غامدی صاحب آپ کے لکچر سن کر دین سیکھنے کا موقع ملتا ہے، اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔حال ہی میں آپ کا ایک پرانا پروگرام حدود آرڈیننس پر سننے کا موقع ملا، جس میں شادی شدہ زانی کے لیے رجم کا انکار کرتے نظر آئے۔ پھر اس بارے میں آپ کے موقف والے لیکچر دوبارہ سنے اور عجیب الجھن کا شکار ہو گیا ہوں۔۔ایک طرف روائتی علماء کا موقف ہے جس میں نتیجے کے طور پر شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا مانی جاتی ہے جو بظاہر روایات کے مطابق صحیح معلوم ہوتی ہے مگر اس کے لیے جو استدلال پیش کیا جاتا ہے یعنی سنت قرآن کو منسوخ کر سکتی ہے وہ ناقابل فہم ہے۔ دوسری طرف آپ کا استدلال ہے کہ رجم کی سزا اصل میں فساد فی الارض کے ذیل میں دی گئی جو بلکل صحیح معلوم ہوتا ہے مگر آپ شادی شدہ کے زنا کرنے کو زنا بالجبر یا ڈاکے کے جرم کی طرح کمپاونڈ جرم نہیں سمجھتے اور اس لیے روایات کی مفروضوں کی بنیاد پر تعویل کرتے ہیں۔ کیا شادی شدہ زانی زنا کے علاوہ مندرجہ ذیل جرائم کا بھی ارتقاب نہیں کرتا؟1۔ اس نے شادی پاک دامن ہونے کی بنیاد پر کی تھی، ورنہ جیسا کہ آپ بتاتے ہیں، شادی کسی بدکردار سے نہیں کی جا سکتی۔ ایسے میں زنا کر کہ اس نے اپنی بیوی یا شوہر کو ایک پاک دامن انسان کی بیوی یا شوہر ہونے سے محروم کر دیا ہے۔ اب اس کی بیوی یا شوہر کے پاس دو راستے ہیں، یا ساری زندگی اس بدنامی کہ ساتھ گزارے ورنہ طلاق لے کر گھر تباہ کر لے۔اور بچوں کی صورت میں صرف دو افراد ہی نہیں اثرانداز ہوں گے بلکہ بچے بھی اس گھر کے تباہ ہونے کی صورت میں ہمیشہ کے لیے متاثر ہوں گے۔2۔ شوہر یا بیوی کے لیے تو الگ ہو کر اس ذلت سے نجات ممکن ہے مگر اولاد چاہ کر بھی ساری زندگی اس بدنامی سے نجات نہیں حاصل کر سکتی۔ اور ساری زندگی ذہنی اذیت اور نفسیاتی امراض کا شکار رہے گی۔3۔ اس کی یہ حرکت ساری زندگی کے لیے اس کی اولاد کو ایک رول ماڈل ماں یا باپ سے محروم کر دے گی۔ ایسی ماں یا باپ کس منہ سے اپنی اولاد کو کوئی اخلاقی تعلیم دے گا، یعنی اولاد کی گمراھی کا سبب بنے گا۔4۔ ایسے شخص کی اولاد، خصوصاََ بیٹیوں سے کون رشتہ جوڑے گا۔5۔ شادی شدہ زانیہ اپنی جائز اولاد کے نصب کو بھی مشکوک بنا دیتی ہے۔
    یہ کچھ باتیں ہیں جو مجھ جیسا کم عقل انسان بھی سمجھ سکتا ہے۔ آپ جیسا عالم یقیناً اس کے علاوہ بھی بہت سے پہلو سمجھ سکتا ہے جو اس جرم کو محض زنا سے بڑھا کر معاشرے کے خلاف جرم بنا دیتے ہیں۔اگر یہ باتیں ایک شادی شدہ زانی کے جرم کو صرف زنا سے بڑھا کر فساد فی الارض کی ذیل میں لانے کے لیے کافی نہیں تو اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں کہ 2000 سال اللہ نے موسیٰ علیہ السلام کی شریعت میں اسے کیوں گوارہ کیا؟ آپ ہمیں بتاتے ہیں کہ شریعت میں تفصیلات وقت کے ساتھ تبدیل ہو سکتی ہیں مگر یہاں معاملہ جان کی حرمت کا ہے۔ یعنی موسیٰ کی شریعت میں شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا کیوں رکھی گئی اور بات یہیں نہیں ختم ہوتی، جب یہودی اس جرم کا مقدمہ لے کر آئے تو کنفرم بھی کیا کہ تورات میں اللہ کا حکم موجود ہے یعنی ایسا نہیں کہ اس بارے میں تورات میں اللہ کا اصل حکم دھندلا گیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس بات کا پابند کیا(المائدہ 48، 49) کہ وہ فیصلہ اللہ کے حکم کے مطابق دیں ، پھر اگر شادی شدہ زانی کی سزا رجم نہیں بنتی تو ایسے شخص کو ہم نبی کیوں مانیں جس نے اللہ کے پابند کرنے کے باوجود اللہ کے حکم کے مطابق سزا نہیں دی بلکہ یہودی کو رجم کر دیا؟

    Dr. Irfan Shahzad replied 2 years, 3 months ago 3 Members · 5 Replies
  • 5 Replies
  • شادی شدہ زانی کی سزا

    Dr. Irfan Shahzad updated 2 years, 3 months ago 3 Members · 5 Replies
  • Dr. Irfan Shahzad

    Scholar January 20, 2022 at 3:29 am

    بنی اسرائیل پر اتمام حجت رسولوں کے ذریعے سے ہوا تھا، اس لیے ان کے لیے جرائم کی سزا کی نوعیت بھی دوسروں سے مختلف رہی۔ انھیں حیلہ بازی پر بندر اور خنزیر بھی بنایا گیا۔

    اس لیے ان کے ہاں شادی شدہ زانی کی سزا رجم رہی ہے تو بات قابل فہم ہے۔ یہی معاملہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں شادی شدہ زانیوں کے ساتھ بھی برتا گیا۔ محمد رسول اللہ نے ان پر اتمام حجت کیا تھا۔ اس لیے انھیں جرائم پر سزائیں بھی سخت دی گئیں۔

    مگر زنا کے قانون کے بیان، یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ زنا کی شرعی سزا بہرحال 100 کوڑے ہے۔ اور رجم کی سزا تقتیل کے ذیل میں آتی ہے۔ یہ اسی مجرم کو ملے گی جس کا جرم گھناؤنے پن کے آخری درجے پر ہو۔ اب یہ عدالت کا کام ہے کہ وہ کسی شادی شدہ زانی کو بھی اس جرم کا مستحق سمجھتی ہے کہ وہ فساد فی الارض کا مجرم بن چکا ہے مثلا بار بار زنا کرنے کا ثبوت ہو، یا ہراسانی کے ساتھ زنا کرنے کا ثبوت ہو تو اسے فساد فی الارض کی سزا دے سکتی ہے۔

    • Zarrar Butt

      Member January 21, 2022 at 2:37 am

      بندر اور سور بنائے جانے کو تو اتمام حجت کے بعد سزا کہا جا سکتا ہے، اس کی نوعیت ایسی نہیں کہ تورات میں لکھ دیا گیا ہو کہ حیلہ سازی کرنے والوں کو یہ سزا دی جائے گی۔ مگر شادی شدہ زانی کی سزا تو باقی جرائم کی سزا کی طرح تورات میں درج ہے جو اسرائیلی سلسلہ نبوت ختم ہونے کے بعد بھی آج کے یہود پر لاگو قوانین میں شامل ہے، جن پر کوئی اتمام حجت نہیں ہو رہا۔اور اگر یہ کہا جائے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے لوگوں پر چونکہ اتمام حجت ہو گیا تھا اس لیے انہیں مختلف سزا ملی تو اس بات کو ویسی ہی صراحت کے ساتھ بیان ہونا چاہیے تھا جیسے سورہ توبہ میں سزا کا اعلان کرتے ہوئے ہوا۔۔۔ محض مفروضے کے بنیاد پر تو یہ نہیں مانا جاسکتا۔۔اور آخر میں جو بڑا سوال ہے وہ یہ ہے کہ نبی نے یہودی کو سنگسار کر کے خود اللہ کے حکم کے خلاف عمل کیوں کیا؟

    • Dr. Irfan Shahzad

      Scholar January 24, 2022 at 2:23 am

      بندور اور سؤر بنانے کو بطور مثال صرف یہ پہلو اجاگر کرنے کے لیے بیان کیا کہ ان پر سزا کی سختی عام لوگوں کے مقابلے میں زیادہ ہوا کرتی تھی۔ مثآل کا ہر لحاظ سے مطابق حال ہونا ضروری نہیں ہوتا۔

      یہی سختی رسول اللہ کے دور میں بھی ان لوگوں پر کی گئی جو جرائم کرتے تھے۔ اس لیے کہ خدا کے رسول کے ہوتے ہوئے، خدا کی براہ راست نگرانی جو رسول کے ذریعے سے ہو رہی تھی، اس پر یقین کرتے ہوئے بھی جرم کرنا زیادہ سزا کا مستحق بنا دیتا تھا۔

      تاہم، اس دور کے بعد اب جب کسی کو سزا دی جائے گی تو جرم کے گھناؤنے پن کے مطابق ہی دی جائے گی۔

      یہود کے ہاں یہ سزا دی جاتی تھی۔ رسول اللہ نے ان کی شریعت کے مطبق فیصلہ کیا اور انھوں نے اسے قبول کیا۔

      روایات میں تمام تفصیلات نہیں ہوتیں۔ یہ روایوں کا بیان ہوتا ہے اور اکثر اوقات وہ اسے قانونی پہلوؤں سے مکمل بیان نہیں کرتے۔

  • اشهل صادق

    Member January 21, 2022 at 8:01 am

    السلام عليكم

    عزیزم، آپ کے سوالات و اعتراضات پڑھے اور امید کرتا ہوں سمجھا بھی ہوں۔ میں اپنا نقطہ نظر عرض کر دیتا ہوں، پھر آپ پڑھ کر بتائیے گا کہ آپ کو اس میں کیا کیا خامیاں نظر آتی ہیں۔

    پہلی بات تو میں کہوں گا کہ میرے نزدیک خود قرآن مجید سے یہ بات واضح ہے کہ زانی شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ، اس کی حد سزا ۱۰۰ کوڑے ہی ہوں گے۔ غیر شادی شدہ میں تو آپ غالبا اتفاق کرتے ہیں۔ رہی شادی شدہ کی بات تو وہ اس کا بھی وہیں سورت نور میں ذکر آیا ہے لیکن کوئی دوسری سزا کا ذکر نہیں آیا۔ آپ سورت نور آیت نمبر ۴ سے ۱۰ پڑھیے اور مجھے بتایے اگر میں غلط نتیجے پہ پہنچا ہوں۔ اس بات سے آپ اتفاق کریں گے کہ یہاں بات شادی شدہ کی ہو رہی ہے لیکن کوئی دوسری سزا نہیں بلکہ اسی سزا یعنی ۱۰۰ کوڑوں کے ہی ٹلنے کا کہا گیا ہے۔

    دوسری بات میں کہوں گا کہ فساد فی الارض سے مراد معاشرہ کی جان، مال، آبرو کے خلاف جان بوجھ کر ہاتھ بڑھانے کو کہتے ہیں۔ یہاں یہ صورت نہیں ہے۔ آپ نے جو اعتراضات اٹھائے ہیں، ان میں سے کئی غیر شادی شدہ کے ساتھ بھی بیٹھتے ہیں۔ مثلا، ایک غیر شادی شدہ زانی کے پاک دامن بھائی کو کون اپنی بیٹی دے گا؟ ایک غیر شادی شدہ زانی کی پاک دامن بہن کو کون اپنائے گاَ؟ اس کے والدین کی کیا عزت رہ جائے گی؟ مزید یہ کہ، اگر کوئی غیر شادی شدہ تو ہو لیکن بچوں والا ہو، مطلب طلاق واقع ہو گئی ہو یا زوج کا انتقال ہو گیا ہو، ہو گا تو ایسا بندہ غیر شادی شدہ لیکن اگر وہ زنا میں ملوث ہوتا ہے تو اس کے بچوں کے ساتھ بھی وہی ہو گا جو ایک شادی شدہ زانی کے بچوں کے ساتھ ہو گا۔

    تو اس لیے، میرے ناقص فہم کے مطابق، زنا کی حد سزا ۱۰۰ کوڑے ہی رہیں گے۔ اور یہ یاد رہنا چاہیے کہ یہ حد سزا ہے اکثر یہ نہیں دی جائے گی کیونکہ کوئی نہ کوئی عذر مجرم رکھتے ہی ہوں گے۔ یہ سزا تو تب کی ہے جب کوئی معقول عذر نہ ہو مجمرمین کے پاس۔ ظاہر ہے کہ شادی شدہ ہونا کافی حد تک اعذار کی تاثیر کم کر دیتا ہے۔ تاہم، یہ حد سزا ہو گی جو دی جائے گی اور یہ معاملہ فساد فی الارض کا نہیں ہو گا۔

    رہی آپ کی آخری بات کہ یہودیوں کے ہاں یہ بات رائج ہے تو یہ بھی اتنا آسان مسئلہ نہیں۔ میں نے آپ کے سوال کی غرض سے اوپر اوپر سے پڑھا ہے تو وہاں بھی رجم صرف غیر شادی شدہ لیکن منگنی شدہ خاتون اور ان کے عاشق کے لیے ہے۔ شادی شدہ کے لیے وہ لوگ عموما پھانسی کی سزا مانتے ہیں۔ اور ان سزاوں کے لیے مرد :شادی شدہ ہے یا نہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ یہ جاننا ضروری ہوتا ہے کہ خاتون شادی شدہ ہے کہ نہیں

    https://www.jewishencyclopedia.com/articles/865-adultery

    اگر مرد شادی شدہ ہے اور کسی غیر شادی شدہ خاتون سے تعلق قائم کرتا ہے تو اسے زنا نہیں سمجھا جاتا اور غالبا اس کی کوئی سزا بھی نہیں ہو گی لیکن یہ میں وثوق سے نہیں بتا سکتا۔

    ایسے ہی میں نے یہ بھی پڑھا ہے کہ یہودیت میں شادی سے پہلے کے تعلقات کو منع نہیں کیا گیا:

    https://www.myjewishlearning.com/article/jewish-views-on-premarital-sex/

    تو آپ ہم ان کے کچھ قوانین لے لیں اور کچھ نہ لیں، یہ تو ٹھیک بات نہیں معلوم ہوتی۔

    رہی روایت کی بات تو اسے ہمیں ہر حال میں قران کی روشنی میں سمجھنا پڑے گا۔ تاویل جو مرضی کریں، دین کو تبدیل کر کے روایتوں کے مطابق نہیں کیا جائے گا۔ رہی یہ بات کہ اگر واقعتا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس یہودی کو رجم کیا تو غالبا ابھی سورت نور کی مذکورہ بالا آیات نازل نہیں ہوئی ہوں گی اور یہودیوں کے ہاں موت جیسے بھی دی جائے لیکن جب خاتون شادی شدہ ہو تو سزا موت کی ہی ہے، تو وہی دی ہوگی۔ لیکن اس روایت کے بارے میں فیصلہ بے حد تحقیق مانگتا ہے جو میں نے نہیں کی۔ لیکن پھر دہرائے دوں گا کہ روایات کی بنا پر دین تبدیل نہیں ہو سکتا۔ ابھی تو میرے نزدیک یہ روایت محل نظر ہے۔

    آپ مجھے یہ جواب پڑھ کر اپنی رائے سے آگاہ کیجیے گا۔ عین ممکن ہے کہ میرے علم و تدبر میں کچھ کمی رہ گئی ہو۔ شکریہ

  • Zarrar Butt

    Member January 23, 2022 at 11:26 pm

    وعلیکم السلام

    رہنمائی کے لیے شکریہ۔ آپ کے جواب سے مزید مطالعہ میں مدد ملے گی، انشاء اللہ۔

    جہاں تک تالمود یاد اورل توراہ کی بات ہے تو اس میں جو کچھ لکھا ہے، اسے اسلام کی روشنی میں سمجھنے کی تو مجھ میں قابلیت نہیں ہے، یہودی جہاں تورات کے کسی حکم سے بچانا چاہتے ہیں تو اسی کے پیچھے جا چھپتے ہیں جیسے غیر یہودی سے سود لینا، وغیرہ۔ اسی لیے غامدی صاحب جیسے صاحب علم سے رجوع کیا تھا۔

    بنیادی اشکال یہی ہے کہ انسانی جان کے خلاف سزا کے معاملے میں اللہ کا دین مختلف ادوار میں الگ کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ کوئی جمعے ہفتے یا نماز کے قبلے کی نوعیت کا معاملہ نہیں ہے۔ شاید کوئی لیکچر موجود ہو، تلاش جاری رہے گی انشاء اللہ۔۔

You must be logged in to reply.
Login | Register