Ask Ghamidi

A Community Driven Discussion Portal
To Ask, Answer, Share And Learn

Forums Forums Islamic Sharia Half Testimony Of Women

  • Half Testimony Of Women

    Posted by Abdullah AbdulRahman on January 20, 2022 at 2:33 am

    Assalamualaikum

    Half testimony of women is in financial cases when i myself make someone witness.But as Ghamidi sahab says that it is not preferable to take home living women(ghar mein rehne waali aurat) to courts.And maybe she may become stressed in that environment, that’s why there are two women.But was that in the frame of 7th century Arabia, because today women can speak as confident as men,so will testimony be equal(instead of two women in place of a man)?

    Abdullah AbdulRahman replied 2 years, 3 months ago 3 Members · 3 Replies
  • 3 Replies
  • Half Testimony Of Women

  • Dr. Irfan Shahzad

    Scholar January 20, 2022 at 3:21 am

    Yes, it is in the perspective of any society where women are not that social or have less knowledge and experience of monetary matters.

  • Humayoon Rashdi

    Member January 20, 2022 at 10:19 am

    Rules are not to be broken. So no. When Allah enforces a rule it is eternal.

    In the case of principles however (as opposed to rules) we may think from ourselves where to draw the line, such as “nazron mein haya karna”, “logon pr ahsan krna, etc” are principles and where we draw the line may change based on differing circimstances.

    Also important to note is the fact this half testimony is only in the case where human being has the choice of selecting witness, not in the case of crime,etc where the corcumstances tdetermine who will be the witness, and human doesnt decide. Let me know if i can explain further if any confusion

  • Abdullah AbdulRahman

    Member January 21, 2022 at 8:35 am

    القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة

    آیت نمبر 282

    أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

    بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

    يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا تَدَايَنۡتُمۡ بِدَيۡنٍ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكۡتُبُوۡهُ ‌ؕ وَلۡيَكۡتُب بَّيۡنَكُمۡ كَاتِبٌۢ بِالۡعَدۡلِ‌ ۚ وَلَا يَاۡبَ كَاتِبٌ اَنۡ يَّكۡتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللّٰهُ‌ فَلۡيَكۡتُبۡ ‌ۚوَلۡيُمۡلِلِ الَّذِىۡ عَلَيۡهِ الۡحَـقُّ وَلۡيَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّهٗ وَلَا يَبۡخَسۡ مِنۡهُ شَيۡــئًا ‌ؕ فَاِنۡ كَانَ الَّذِىۡ عَلَيۡهِ الۡحَـقُّ سَفِيۡهًا اَوۡ ضَعِيۡفًا اَوۡ لَا يَسۡتَطِيۡعُ اَنۡ يُّمِلَّ هُوَ فَلۡيُمۡلِلۡ وَلِيُّهٗ بِالۡعَدۡلِ‌ؕ وَاسۡتَشۡهِدُوۡا شَهِيۡدَيۡنِ مِنۡ رِّجَالِكُمۡ‌ۚ فَاِنۡ لَّمۡ يَكُوۡنَا رَجُلَيۡنِ فَرَجُلٌ وَّامۡرَاَتٰنِ مِمَّنۡ تَرۡضَوۡنَ مِنَ الشُّهَدَآءِ اَنۡ تَضِلَّ اِحۡدٰٮهُمَا فَتُذَكِّرَ اِحۡدٰٮهُمَا الۡاُخۡرٰى‌ؕ وَ لَا يَاۡبَ الشُّهَدَآءُ اِذَا مَا دُعُوۡا ‌ؕ وَلَا تَسۡــئَمُوۡۤا اَنۡ تَكۡتُبُوۡهُ صَغِيۡرًا اَوۡ كَبِيۡرًا اِلٰٓى اَجَلِهٖ‌ؕ ذٰ لِكُمۡ اَقۡسَطُ عِنۡدَ اللّٰهِ وَاَقۡوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَاَدۡنٰۤى اَلَّا تَرۡتَابُوۡٓا اِلَّاۤ اَنۡ تَكُوۡنَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِيۡرُوۡنَهَا بَيۡنَكُمۡ فَلَيۡسَ عَلَيۡكُمۡ جُنَاحٌ اَلَّا تَكۡتُبُوۡهَا ‌ؕ وَاَشۡهِدُوۡۤا اِذَا تَبَايَعۡتُمۡ ۖ وَلَا يُضَآرَّ كَاتِبٌ وَّلَا شَهِيۡدٌ ؕ وَاِنۡ تَفۡعَلُوۡا فَاِنَّهٗ فُسُوۡقٌ ۢ بِكُمۡ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ‌ ؕ وَيُعَلِّمُكُمُ اللّٰهُ‌ ؕ وَاللّٰهُ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيۡمٌ ۞

    ترجمہ:

    اے لوگو جو ایمان لائےہو، جب کسی مقرّر مدت کےلیے تم آپس میں لین دین کرو ، تو اُسے لکھ لیا کرو۔فریقین کے درمیان انصاف کے ساتھ ایک شخص دستاویز تحریر کرے۔ جسے اللہ نے لکھنے پڑھنے کی قابلیت بخشی ہو، اُسے لکھنے سے انکار نہ کرنا چاہیے۔وہ لکھے اور املا وہ شخص کرائےجس پر حق آتا ہے(یعنی قرض لینے والا)، اور اُسے اللہ ،اپنے ربّ سے ڈرنا چاہیےکہ جو معاملہ طے ہوا ہو اس میں کوئی کمی بیشی نہ کرے۔ لیکن اگر قرض لینے والا خود نادان یا ضعیف ہو ، یا املا نہ کراسکتا ہو، تو اس کا ولی انصاف کے ساتھ املا کرائے۔ پھر اپنے مردوں میں سے دو آدمیوں کی اس پر گواہی کرالو۔ اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں تاکہ ایک بھول جائے، تو دوسری اُسے یاد دلائے۔ یہ گواہ ایسے لوگوں میں سے ہونے چاہییں، جن کی گواہی تمہارے درمیان مقبول ہو۔ گواہوں کو جب گواہ بننے کے لیے کہا جائے ، تو انہیں انکار نہ کرنا چاہیے۔ معاملہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ، میعاد کی تعیین کے ساتھ اس کی دستاویز لکھوا لینے میں تسا ہل نہ کرو۔ اللہ کے نزدیک یہ طریقہ تمہارے لیے زیادہ مبنی بر انصاف ہے، اس سے شہادت قائم ہونے میں زیادہ سہولت ہوتی ہے۔ اور تمہارے شکوک وشبہات میں مبتلا ہونے کا امکان کم رہ جاتا ہے۔ ہاں جو تجارتی لین دین دست بدست تم لوگ آپس میں کرتے ہو، اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں، مگر تجارتی معاملے طے کرتے وقت گواہ کر لیا کرو۔ کاتب اور گواہ کو ستایا نہ جائے۔ ایسا کروگے ، تو گناہ کا ارتکاب کرو گے۔ اللہ کے غضب سے بچو۔ وہ تم کو صحیح طریقِ عمل کی تعلیم دیتا ہے اور اسے ہر چیز کا علم ہے

    I think Irfan bhai’s reason is ok, because Allah also said if one forget then…..,so if someone has that competency then.

You must be logged in to reply.
Login | Register