-
Nature Of Human Test
،دیکھیے یہ بات بالکل قابل سمجھ ہے کہ امتحان عملی ہو یا علمی اسکا فیصلہ خدا کو ہی کرنا ہے نا ،جب اس نے یہ کائنات بنائ؟
ٹھیک ہے ،
لیکن دین کا جہاں سارا مقدمہ عقل کے اس قدر مسلمات پر کھڑا اور پیش ہوتا نظر آتا ہے، تو آپ مجھے بتائے کہ جب ایک عقل مند کے سامنے دین کا یہ narrative پیش کیا جائے آج کے دور میں،تو زیل میں سے کونسی بات زیادہ عقلی پیاس اور قیاس پر پورا اترتی ہے،
بات نمبر1: کہ خدا انسان سے صرف عملی امتحان لے لے، جیسے آدم و ابلیس سے لیا،
بات نمبر 2: صرف علمی امتحان لے لے؟جس میں ہم اسکو تلاش کریں اور بالآخر علم و عقل کی روشنی میں اس پر ایمان لے آئیں، اور وہ چھپ کر ہی ہمیں دیکھتا رہے،جیسے کہ اب بھی، اور پھر جب اسے یہ یقین ہوجائے کہ ہاں اس بندے کو میرے وجود کا یقین ہو گیا ہے یا مجھ پر ایمان لے آیا ہے تو اس پر دوزخ یا جنت کا ٹھپا لگا دے؟
بات نمبر3: وہ علم و عمل ، یعنی بات نمبر 1 اور 2 دونوں کا امتحان لے لے،
لیکن میرا سوال یہی ہے کہ وہ ایسا امتحان کیوں لے رہا ہے،جس میں اصل میں چاہتا وہ ہمیں اور ہمارے عمل کو ہی کنٹرول کرنا ہے، یعنی انسان کے معاشرے اور رویے اور بالاخر عمل کو ہی،لیکن خود چھپ کر بیٹھ گیا ہے؟ اور بہانا کر رہا ہے کہ یہ بھی تمہارا امتحان ہے،
مطلب عجیب نہیں؟
میں پھر سے اپنی بات دہراتا ہوں کہ امتحان علمی ہو ،عملی ہو ،یا کسی بھی بنیاد پر،اسکا فیصلہ عقلی بات ہے کہ خالق کو ہی کرنا چاہیے،
لیکن میرے خیال سے جو دین ایک استدلالی اور عین عقلی مذہب ہونے کے دعوے کی کسوٹی پر کھڑا ہے، ایسا دین کے جسے انسان کا باطن بھی جھپٹ کر تسلیم کرے،اسکا یہ تقاضا ہے نا کہ وہ عقلی ہی محسوس ہونا چاہیے اپنے تما مقدمات میں؟
لیکن میرے نزدیک اگر امتحان کی نوعیت بات نمبر1 یا 2 کی سی ہوتی تو بھی عقلی محسوس ہوتی تھی،
پر اس بات نمبر 3 ،علمی و عملی امتحان کا combo ورژن پر بہت سے شکوک نہیں پیدا ہوتے ؟ یا اس خالق کائنات کے اس مذہبی پیرامیٹر پر دانت میں ایک اجیب سی کرکراہٹ سی نہیں پیدا ہوتی بھلا؟
جیسے کہ غالباً اسی طرز کے سوال پر جو کہ ویڈیو کے 21:51 پر شروع ہوا اور تقریباً 23:23 پر ختم ،غامدی صاحب نے جو جواب دیا پر میرا ایک مزید سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ،
“چلو بار بار غلطی پر تنبیہہ کا سلسلہ نا شروع کردیں/کردیتے اللّٰہ تعالیٰ، بس ایک دفعہ پیدا ہونے پر انسان کی ہاررڈسک میں اپنی حقیقت یا وجود کا تصور محفوظ کر ڈالتے، اور پھر اسکو چھوڑ دیتے عملی امتحان کے لیے؟
اور ویسے بھی اس خدا کے لیے یہ کوئ نئ بات تو نا تھی؟
ابلیس بھی تو اسی طرح امتحان میں فیل ہوا نا؟
عملی امتحان میں؟
نا کہ خدا پر ایمان رکھنے یا نا رکھنے کے امتحان میں؟
اور جیسے حضرت آدم علیہ السلام اسی میں پاس ہو گئے، اپنی غلطی کی معافی مانگ کر،بر عکس ابلیس کے جو اپنی انا پر ڈٹ گیا،
یعنی عملی امتحان میں،
مذہب کے اس طرز کے امتحان کی یہی وجہ ہے کہ کوئ مصنف یا محقق جیسے کہ ہراری،جس کے مقدمے کے بارے میں میں پہلے بھی اپنی کنفیوژن پر بات کر چکا ہوں، کو ایک بہت مضبوط توجیہ یا بیانیہ بیان کرنے کا موقع مل گیا ہے کہ انسان جو کہ ‘امیجنڈ-رئیلٹی’ یا اپنی خود کی گھڑی حقیقت میں جینے کا عادی ہے،اسی انسان کی نسل در نسل ،کچھ پرانے انسانوں نے معاشرے اور اسکو کنٹرول کرنے کے لیے ایک خدائی تصور کے ساتھ اسکی تربیت کی ہے،بے شک جو کہ آجکے انسان کی ترقی کا بھی سبب ہے اس پلینٹ پر،اور اسے اس خوش فہمی میں مبتلا کیا گیا ہے کہ یہ کائنات اسی کے لیے ہی بنائ گئ ہے،اور جس خالق نے یہ کائنات بنائ،وہ ایک مذہبی خدا ہی ہے، اور انسانوں میں ہی بے حد دلچسپی رکھتا ہے، وغیرہ وغیرہ وغیرہ
لیکن اصل میں ایمان کا فکشن اور سازش رچا کر،یعنی بات نمبر 2 کا، اصل میں اسکی بات نمبر1 ، یعنی عمل کو ہی سیدھا کرنا اور شروع سے قابو کرنا مقصود تھا، تاکہ معاشرے میں نظم وضبط اور باہمی تعاون اور ‘انسانیت’ نامی چیز کو پروان ملے،
میرا سوال بالکل یہی ہے کہ مذہب کے مقابل میں گھڑی گئ اس کہانی ،یا امیجنڈ رئیلٹی کے اس توجیہی نظریے کو سننے کے بعد، یہ کمبائن یا کمبو امتحان کا تصور تھوڑا بے تکا محسوس نہیں ہوتا؟
Sponsor Ask Ghamidi