Ask Ghamidi

A Community Driven Discussion Portal
To Ask, Answer, Share And Learn

Forums Forums Youth and Islam Nature Of Human Test

Tagged: ,

  • Nature Of Human Test

    Posted by Ramzan Zahoor on May 5, 2022 at 9:47 pm

    ،دیکھیے یہ بات بالکل قابل سمجھ ہے کہ امتحان عملی ہو یا علمی اسکا فیصلہ خدا کو ہی کرنا ہے نا ،جب اس نے یہ کائنات بنائ؟

    ٹھیک ہے ،

    لیکن دین کا جہاں سارا مقدمہ عقل کے اس قدر مسلمات پر کھڑا اور پیش ہوتا نظر آتا ہے، تو آپ مجھے بتائے کہ جب ایک عقل مند کے سامنے دین کا یہ narrative پیش کیا جائے آج کے دور میں،تو زیل میں سے کونسی بات زیادہ عقلی پیاس اور قیاس پر پورا اترتی ہے،

    بات نمبر1: کہ خدا انسان سے صرف عملی امتحان لے لے، جیسے آدم و ابلیس سے لیا،

    بات نمبر 2: صرف علمی امتحان لے لے؟جس میں ہم اسکو تلاش کریں اور بالآخر علم و عقل کی روشنی میں اس پر ایمان لے آئیں، اور وہ چھپ کر ہی ہمیں دیکھتا رہے،جیسے کہ اب بھی، اور پھر جب اسے یہ یقین ہوجائے کہ ہاں اس بندے کو میرے وجود کا یقین ہو گیا ہے یا مجھ پر ایمان لے آیا ہے تو اس پر دوزخ یا جنت کا ٹھپا لگا دے؟

    بات نمبر3: وہ علم و عمل ، یعنی بات نمبر 1 اور 2 دونوں کا امتحان لے لے،

    لیکن میرا سوال یہی ہے کہ وہ ایسا امتحان کیوں لے رہا ہے،جس میں اصل میں چاہتا وہ ہمیں اور ہمارے عمل کو ہی کنٹرول کرنا ہے، یعنی انسان کے معاشرے اور رویے اور بالاخر عمل کو ہی،لیکن خود چھپ کر بیٹھ گیا ہے؟ اور بہانا کر رہا ہے کہ یہ بھی تمہارا امتحان ہے،

    مطلب عجیب نہیں؟

    میں پھر سے اپنی بات دہراتا ہوں کہ امتحان علمی ہو ،عملی ہو ،یا کسی بھی بنیاد پر،اسکا فیصلہ عقلی بات ہے کہ خالق کو ہی کرنا چاہیے،

    لیکن میرے خیال سے جو دین ایک استدلالی اور عین عقلی مذہب ہونے کے دعوے کی کسوٹی پر کھڑا ہے، ایسا دین کے جسے انسان کا باطن بھی جھپٹ کر تسلیم کرے،اسکا یہ تقاضا ہے نا کہ وہ عقلی ہی محسوس ہونا چاہیے اپنے تما مقدمات میں؟

    لیکن میرے نزدیک اگر امتحان کی نوعیت بات نمبر1 یا 2 کی سی ہوتی تو بھی عقلی محسوس ہوتی تھی،

    پر اس بات نمبر 3 ،علمی و عملی امتحان کا combo ورژن پر بہت سے شکوک نہیں پیدا ہوتے ؟ یا اس خالق کائنات کے اس مذہبی پیرامیٹر پر دانت میں ایک اجیب سی کرکراہٹ سی نہیں پیدا ہوتی بھلا؟

    جیسے کہ غالباً اسی طرز کے سوال پر جو کہ ویڈیو کے 21:51 پر شروع ہوا اور تقریباً 23:23 پر ختم ،غامدی صاحب نے جو جواب دیا پر میرا ایک مزید سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ،

    “چلو بار بار غلطی پر تنبیہہ کا سلسلہ نا شروع کردیں/کردیتے اللّٰہ تعالیٰ، بس ایک دفعہ پیدا ہونے پر انسان کی ہاررڈسک میں اپنی حقیقت یا وجود کا تصور محفوظ کر ڈالتے، اور پھر اسکو چھوڑ دیتے عملی امتحان کے لیے؟

    اور ویسے بھی اس خدا کے لیے یہ کوئ نئ بات تو نا تھی؟

    ابلیس بھی تو اسی طرح امتحان میں فیل ہوا نا؟

    عملی امتحان میں؟

    نا کہ خدا پر ایمان رکھنے یا نا رکھنے کے امتحان میں؟

    اور جیسے حضرت آدم علیہ السلام اسی میں پاس ہو گئے، اپنی غلطی کی معافی مانگ کر،بر عکس ابلیس کے جو اپنی انا پر ڈٹ گیا،

    یعنی عملی امتحان میں،

    مذہب کے اس طرز کے امتحان کی یہی وجہ ہے کہ کوئ مصنف یا محقق جیسے کہ ہراری،جس کے مقدمے کے بارے میں میں پہلے بھی اپنی کنفیوژن پر بات کر چکا ہوں، کو ایک بہت مضبوط توجیہ یا بیانیہ بیان کرنے کا موقع مل گیا ہے کہ انسان جو کہ ‘امیجنڈ-رئیلٹی’ یا اپنی خود کی گھڑی حقیقت میں جینے کا عادی ہے،اسی انسان کی نسل در نسل ،کچھ پرانے انسانوں نے معاشرے اور اسکو کنٹرول کرنے کے لیے ایک خدائی تصور کے ساتھ اسکی تربیت کی ہے،بے شک جو کہ آجکے انسان کی ترقی کا بھی سبب ہے اس پلینٹ پر،اور اسے اس خوش فہمی میں مبتلا کیا گیا ہے کہ یہ کائنات اسی کے لیے ہی بنائ گئ ہے،اور جس خالق نے یہ کائنات بنائ،وہ ایک مذہبی خدا ہی ہے، اور انسانوں میں ہی بے حد دلچسپی رکھتا ہے، وغیرہ وغیرہ وغیرہ

    لیکن اصل میں ایمان کا فکشن اور سازش رچا کر،یعنی بات نمبر 2 کا، اصل میں اسکی بات نمبر1 ، یعنی عمل کو ہی سیدھا کرنا اور شروع سے قابو کرنا مقصود تھا، تاکہ معاشرے میں نظم وضبط اور باہمی تعاون اور ‘انسانیت’ نامی چیز کو پروان ملے،

    میرا سوال بالکل یہی ہے کہ مذہب کے مقابل میں گھڑی گئ اس کہانی ،یا امیجنڈ رئیلٹی کے اس توجیہی نظریے کو سننے کے بعد، یہ کمبائن یا کمبو امتحان کا تصور تھوڑا بے تکا محسوس نہیں ہوتا؟

    https://youtu.be/QINiwH7GjgQ

    Dr. Irfan Shahzad replied 1 year, 10 months ago 4 Members · 10 Replies
  • 10 Replies
  • Nature Of Human Test

    Dr. Irfan Shahzad updated 1 year, 10 months ago 4 Members · 10 Replies
  • Faisal Haroon

    Moderator May 6, 2022 at 11:19 am

    میرا سوال بالکل یہی ہے کہ مذہب کے مقابل میں گھڑی گئ اس کہانی ،یا امیجنڈ رئیلٹی کے اس توجیہی نظریے کو سننے کے بعد، یہ کمبائن یا کمبو امتحان کا تصور تھوڑا بے تکا محسوس نہیں ہوتا؟”

    پہلی چیز جس کو سمجھنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ علم احساسات یا مفروضوں پر مبنی نہیں ہے۔ علم کی بنیاد جائز اور سچے عقائد پر ہوتی ہے جو ہم تجرباتی شواہد اور ان سے اخذ کردہ منطقی استدلال کے ذریعے حاصل کرتے ہیں۔

    دوسری بات یہ ہے کہ آپ کو کسی بھی حقیقت پر عمل کرنے سے پہلے اس پر یقین کرنا ہوگا۔ یہ تصور روز مرہ کے انسانی رویے سے ملنے والے شواہد پر مبنی مکمل طور پر عقلی ہے اور اس میں کچھ بھی بیہودہ نہیں ہے۔

    میرا سوال یہی ہے کہ وہ ایسا امتحان کیوں لے رہا ہے،جس میں اصل میں چاہتا وہ ہمیں اور ہمارے عمل کو ہی کنٹرول کرنا ہے، یعنی انسان کے معاشرے اور رویے اور بالاخر عمل کو ہی،لیکن خود چھپ کر بیٹھ گیا ہے؟ اور بہانا کر رہا ہے کہ یہ بھی تمہارا امتحان ہے”

    خدا ایک بہانہ بنا رہا ہے ایک ایسا دعویٰ ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ وہی ہے جس نے یہ امتحان بنایا ہے، اور وہی ہے جو ہر فرد کے لیے امتحان کے معیارات طے کرنے کا حق رکھتا ہے۔ ہمیں اس امتحان کو قبول کرنے کا موقع دیا گیا تھا اور ہم نے اسے قبول کر لیا۔ ہمارے پاس ابھی بھی موقع ہے کہ ہم اپنی جان لے کر اپنا امتحان ختم کر دیں، لیکن مشاہدے سے ہم جانتے ہیں کہ تمام تر مصائب کے باوجود ہم اس دنیا میں رہنا چاہتے ہیں۔ کیا یہ ثبوت کافی نہیں کہ اب بھی ہم اس امتحان کو قبول کرتے ہیں؟

    اسکا یہ تقاضا ہے نا کہ وہ عقلی ہی محسوس ہونا چاہیے اپنے تما مقدمات میں؟

    ایک بار پھر، علم احساسات پر مبنی نہیں ہے۔ اس لیے میں نے پہلے مشورہ دیا تھا کہ آپ کو یہ سمجھنے میں کچھ وقت گزارنا چاہیے کہ سچائی کیسے اخذ کی جاتی ہے۔

    چلو بار بار غلطی پر تنبیہہ کا سلسلہ نا شروع کردیں/کردیتے اللّٰہ تعالیٰ، بس ایک دفعہ پیدا ہونے پر انسان کی ہاررڈسک میں اپنی حقیقت یا وجود کا تصور محفوظ کر ڈالتے، اور پھر اسکو چھوڑ دیتے

    عملی امتحان کے لیے؟

    یہ بالکل ایسا ہی ہے۔ ہر انسان فطری طور پر ایک خالق کا تصور رکھتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو بنی نوع انسان کی پوری معلوم تاریخ میں ہمیں انسانوں کی ایک بہت بڑی اکثریت خدا پر یقین رکھنے والی نہیں ملتی۔ جب تک ہم اپنے تعصبات، جذبات وغیرہ کو اپنے علم میں مداخلت نہیں کرنے دیتے، ہم اس تصور سے محروم نہیں ہوتے۔ امتحان خالق کو تلاش کرنے کا نہیں ہے بلکہ علم کی بنیاد پر اسے پہچاننے کا ہے۔

    لیکن اصل میں ایمان کا فکشن اور سازش رچا کر،یعنی بات نمبر 2 کا، اصل میں اسکی بات نمبر1 ، یعنی عمل کو ہی سیدھا کرنا اور شروع سے قابو کرنا مقصود تھا، تاکہ معاشرے میں نظم وضبط اور باہمی تعاون اور ‘انسانیت’ نامی چیز کو پروان ملے”

    یہ آپ کا اپنا مفروضہ ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ہم تاریخ سے جانتے ہیں کہ معاشرے اس وقت بھی موجود تھے جب انسان ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے اور وہ اب بھی موجود ہیں جب مجموعی طور پر انسان زیادہ مہذب ہیں۔ خدا کو معاشروں کو کنٹرول کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم، جب خدا کو پہچاننے کے نتیجے میں ہم جوابدہی کے احساس کے ساتھ اپنی زندگی بسر کرتے ہیں، تب ہی ہم اپنی اعلیٰ اخلاقی صلاحیت کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوتے ہیں اور زیادہ مہذب انداز میں زندگی گزارنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ہم میں سے جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ خدا کی جنت کے لیے منتخب ہو جاتے ہیں۔ جنت وہ جگہ ہے جہاں سب سے زیادہ پاکیزہ لوگ داخل ہوں گے۔ یہ سوچنا غیر معقول ہے کہ اخلاقیات کے امتحان کے بغیر لوگوں کو جنت میں جانے کی اجازت دی جائے گی۔

    ایک بار پھر میں آپ کو عاجزی کے ساتھ دعوت دیتا ہوں کہ قیاس آرائیوں میں وقت ضائع کرنے سے پہلے خدا کی پوری کتاب پڑھیں۔ آپ کا مسئلہ خدا کے پیغام کو سمجھنے کا ہے جو بظاہر چند ویڈیوز اور سنی سنائی باتوں پر مبنی ہے۔ کیا آپ نیوٹن یا شیکسپیئر کے کاموں پر تنقید کرنے والے کسی کی گفتگو پر توجہ دیں گے جس نے انہیں پڑھا بھی نہیں؟

  • Ramzan Zahoor

    Member May 6, 2022 at 1:27 pm

    علم احساسات یا مفروضوں پر مبنی نہیں ہے۔” علم کی بنیاد جائز اور سچے عقائد پر ہوتی ہے جو ہم تجرباتی شواہد اور ان سے اخذ کردہ منطقی استدلال کے ذریعے حاصل کرتے ہیں”


    میں بھی آپ سے یہی گزارش کروں گا کہ آپ بھی وقت نکال کر وہ کتاب پڑھیے،جس پر آپکو معلوم ہو جائے کہ اس محقق نے محض چند لفظوں کی سمری نہیں بیان کی،بلکہ پورا کا پورا تاریخی اور انسانی رویہ اور بہت سی چیزوں کو سامنے رکھ کر اور دیکھ کر عین اسی استنباطی طرز پر یہ نتیجہ قائم کیا ہے،بالکل جیسے ہم مشاہدات اور تجربات سے استنباطی طور پر نتیجہ خدا پر پہنچتے ہیں،

    میری کنفیوژن کا مسئلہ بھی خدا کا انکار نہیں ہے،بلکہ میرا سوال یہی گھوم رہا ہے کہ جو خدا یا ذہانت اس کائنات کو بنانے کے پیچھے کارفرما ہے،کیا وہ واقعے میں ہی دنیا کی اس قدر مخلوقوں کو پس پشت ڈال کر انسان میں ہی اس قدر دلچسپ یا انٹرسٹڈ ہے؟


    خدا ایک بہانہ بنا رہا ہے ایک ایسا دعویٰ ہے جس” “کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔

    خدا کو معاشروں کو کنٹرول کرنے کی ضرورت” نہیں ہے۔ تاہم، جب خدا کو پہچاننے کے نتیجے میں ہم جوابدہی کے احساس کے ساتھ اپنی زندگی بسر کرتے ہیں، تب ہی ہم اپنی اعلیٰ اخلاقی صلاحیت کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوتے ہیں اور زیادہ مہذب انداز میں “زندگی گزارنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔


    میں نے بھی یہی بات ہی تو پہنچانے کی تو کوشش کی ہے کہ خدا کو بہانہ بنانے اور معاشرے کو کنٹرول کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

    اصل میں ادھر بھی تو مقدمہ یہی ہے نا کہ یہ پرانے اور اچھے انسانوں کی پلاننگ یا داستان کا حصہ ہے،کہ وہی تو تھے جو انسانوں کو کنٹرول کرنا اور انکی اخلاقیات کو باندھ کر معاشرے کو خوبصورت بنانا چاہتے تھے؟

    جیسے کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ

    لیکن اصل میں ایمان کا فکشن اور سازش رچا” کر،یعنی بات نمبر 2 کا، اصل میں اسکی بات نمبر1 ، یعنی عمل کو ہی سیدھا کرنا اور شروع سے قابو کرنا مقصود تھا، تاکہ معاشرے میں نظم وضبط اور باہمی تعاون اور ‘انسانیت’ نامی چیز کو پروان ملے”


    “علم احساسات پر مبنی نہیں ہے۔”

    جی بالکل یہ کوئ احساس اور قیاس آرائ کا قصہ نہیں ہے ،بلکہ اس کا سب سے بڑا شاہد خود انسان کا آجکا بھی اور ہمیشہ سے موجود خود کی گھڑی گئی حقیقوں میں جینے کا رویہ ہے،

    مثلاً ،میں نے پہلے بھی یہ بات واضح کی،کہ آج کے اس قدر سمجھدار اور چالاک انسانوں کو بھی سیاسی لیڈرز نا جانے کیسی کیسی حقیقتیں،جنکا سرے سے کوئ اصل ہی موجود نہیں ،گھڑ کر پوری کی پوری قوموں کو کنٹرول کر لیتے اور کر رہے ہیں،اور کرتے چلے آئے ہیں

    میں زیادہ بات کو لمبا کرنے کی کوشش نا کروں تو یہی کہوں گا کہ خود انسان کا موجودہ اور ہمیشہ سے رہنے والا رویہ ہی اس داستان ‘امیجنڈ-ریئلٹی’ کا بہت بڑا شاہد ہے،


    “ہر انسان فطری طور پر ایک خالق کا تصور رکھتا ہے”

    مذہبی خالق کا؟

    جس کا دل پسند موضوع ہی ساری کائنات کو چھوڑ کر انسان ہے؟

    قیاس آرائیوں میں وقت ضائع کرنے سے پہلے” “خدا کی پوری کتاب پڑھیں۔

    جی مجھے بھی اس قدر عقلی استدلال پر جب اسلام اور خدا کا تصور کھڑا نظر آتا ہے تو اکثر مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب میری یا کسی کی شاید کہیں قیاس آرائیاں تو نہیں،

    لیکن اب تو جو ہے سو ہے نا اور یہ سوال اٹھانے کا رویہ شاید غامدی صاحب کی ہی بدولت ہے؟

    تو اگر یہ قیاس محض ایک قیاس ہی ہے تو اسکو قیاس ہی ثابت ہونا پڑے گا،نا کہ عقل کو اپیل کرتا ہوا ایک تجرباتی حقیقت سا قصہ،

    باقی میرا بھی آپ سے یہ سوال تو نہیں،کیوں کہ میں نے اگلا مطالعہ قرآن مجید کا ہی کرنا ہے لیکن،ازراہ دلچسپی میں بس یہ سوال ہے کہ میں اسی کتاب کو ہی کیوں اٹھاؤ؟

    دنیا کی ساری مذہبی کتابوں کو چھوڑ کر؟

    بس شاید یہ جدوجہد بھی اسی کتاب کو دل سے کھولنے کی تڑپ ہی کی وجہ سے کر رہا ہوں میں۔

    اور میں گزارش کروں گا کہ آپ مجھے جذبات ،تعصبات میں ڈوبا ہوا نا سمجھیں 😂 ،

    میں قسم سے ایک دم اسلامی دل سے یہ باتیں جاننے اور سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں

  • Faisal Haroon

    Moderator May 6, 2022 at 2:24 pm

    میں نے ‘سیپیئنز’ کتاب کو اتنا ہی پڑھا ہے جتنا میں اسے ہضم کر سکتا تھا۔ یہ بہت واضح ہے کہ کتاب ایک خاص نظریے کے بارے میں ذہن بنانے کے بعد لکھی گئی ہے۔ ایسے معاملات میں حقائق کو اس انداز میں ترتیب دیا جا سکتا ہے جو مقدمہ کی حمایت کرے۔ کتاب میں ایسی بہت سی چیزیں بھی ہیں جنہیں حقائق کے طور پر پیش کیا گیا ہے جب کہ وہ حقیقت میں ایسا نہیں ہیں۔

    انسانوں میں خدا کی دلچسپی کے بارے میں کوئی کیوں پریشان ہو میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ ویسے بھی، اگر یہ آپ کا سوال ہے تو اس کا جواب خدا کی کتاب میں دیا گیا ہے۔

    سیاست اور دیگر شعبوں میں جھوٹ کا خدا کے تصور سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ تمام جھوٹ عام طور پر ایک صدی سے بھی کم عرصے میں سامنے آ جاتے ہیں جبکہ خدا کا تصور انسانیت کے آغاز سے ہی موجود ہے اور آخر تک ایسا ہی رہے گا۔

    اسلام کا تصور خدا صرف عقلیت پر مبنی نہیں ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ علم کو عقلیت کے ساتھ الجھا رہے ہیں۔ انسانی ذہن میں منطقی لیکن بالکل بے بنیاد چیزوں کا تصور کرنے کی لامحدود صلاحیت ہے۔ اس قسم کی چیزیں کبھی بھی علم کی بنیاد نہیں بن سکتیں۔ اس کے بجائے علم ان عقلی قیاسات سے تشکیل پاتا ہے جو حقیقت میں مشاہدے پر مبنی ہوتے ہیں۔ یہ ایک بہت اہم نکتہ ہے جس پر آپ کو گہرائی سے غور کرنا چاہیے اور مجھے امید ہے کہ اس سے آپ کے لیے علم کے کچھ دروازے کھلیں گے۔

    اگر آپ نہیں چاہتے تو آپ کو قرآن پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم، اگر آپ اسلام کے تصورِ خدا پر تنقید کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو پہلے اس تصور کو ماخذ سے سمجھنا چاہیے۔

    • Ramzan Zahoor

      Member May 6, 2022 at 3:46 pm

      میں نے ‘سیپیئنز’ کتاب کو اتنا ہی پڑھا ہے” “جتنا میں اسے ہضم کر سکتا تھا

      آپکی اس بات سے کیا مراد لوں میں؟ازراہ کرم میں سمجھا نہیں


      انسانی ذہن میں منطقی لیکن بالکل بے” بنیاد چیزوں کا تصور کرنے کی لامحدود “صلاحیت ہے۔

      حقائق کو اس انداز میں ترتیب دیا جا” “سکتا ہے جو مقدمہ کی حمایت کرے۔

      میں بھی کب سے اسی بحث میں آپ سے مبتلا ہوں،کہ انسانی ذہن منطقی ضرور ہے ،لیکن فکشنل رئیلٹی میں بے حد ڈوبا ہوا بھی،اور اگر آپ یہ الزام ایک تحقیقی افسانہ پر لگا سکتے ہیں کہ اسکے حقائق کو مقدمے کی مد میں انسان ترتیب دے سکتا ہے تو یہی انگلی تو پھر اسلام کے حقائق پر بھی اٹھنی چاہیے؟ اس طرح نظر آتا ہے کہ دونوں کے دونوں نیریٹیوز ایک دوسرے کو غلط کیے بنا ،ایک ہی جگہ اپنی اپنی عقلی استدلالوں پر ایک ہی جگہ کھڑے رہیں گے،

      آج مجھ سا یہ انسان ،تو کل نا جانے مجھ سے کتنے انسان اسی افسانے کو حقیقت سمجھ کر گزارنے لگ گیا تو پھر اس وقت الحاد کی بجائے،مذہب کو کٹیھرے میں کھڑا ہوکر بتانا نا پڑھ جائے،کہ آؤ اگر یہ،افسانہ ہی ہے،تو اسے غلط ثابت کردو؟اور پھر کہیں ان دونوں مقدموں سے ایک مقدمہ آگے نکل گیا تو؟

      ایسی بہت سی چیزیں بھی ہیں جنہیں” حقائق کے طور پر پیش کیا گیا ہے جب کہ “وہ حقیقت میں ایسا نہیں ہیں۔

      جی میں بھی یہی عرض کر رہا ہوں کہ مذہب کے اوپر اٹھائ گئی اس انگلی کی جب تک آپ غلطیاں واضح نہہں کریں گے،یہ داستاں مزید سے مزید تر بڑھتی چلی جائے گی،اور ہو سکتا ہے کہ اسی ہی کی بنیاد پر ہمارے اگلوں کے لیے بھی اج ہی کسی ایسے افسانوی علمی تواتر کی بنیاد گھڑ دی جائے،

      انسانوں میں خدا کی دلچسپی کے بارے” میں کوئی کیوں پریشان ہو میری سمجھ “سے بالاتر ہے۔

      خدا سے نہیں،پریشانی ‘مذہبی خدا’ سے ہے شاید،

      اور اگر آپکو نہیں لگتا کہ انسان کو اس حوالے سے کوئ پریشانی ہونی چاہیے تو ان بہت سارے سوالوں کے جواب دے دیجیے جو کتاب میں بھی اٹھائے گئے، اور جو مذہب اپنے مقدمے اور حق کے دینے کی ضرورت نہیں سمجھتا ،

      جیسے خدا نے اس پلینٹ پر پھر یہ فضول میں ستر لاکھ سے زائد مخلوقات کیوں بنا ڈالی؟

      یہ اس قدر نا ختم ہونے والی کہکشاؤں اور خالی کے خالی سیاروں کا کیا مقصد ہے؟اور اگر ہے بھی تو صرف اور صرف انسان ہی ؟

      کیا ایک مخلوق فرضن،کوئ کتا جب دوسرے کتے کے منہ کا نوالا چھین کر چلا جائے ،تو اسکے لیے کوئ اخلاقیات کیوں نہیں ہے؟یا اسکی فیلنگز کی کوئ قدر کیوں نہیں ہے؟

      یا صرف اسکا یہ قصور ہے ک وہ انسان کی طرح انسانوں میں یا اپنی آبائ مخلوق میں بول بال کر اپنے حقوق نا منوا سکا،؟


      مطلب اس طرح کے بے شمار سوال مزید بھی پیدا ہوتے ہیں،جو کہ اس مقدمے کو مزید پختہ کرتے جنم لیتے نظر آتے ہیں


      تمام جھوٹ عام طور پر ایک صدی سے” بھی کم عرصے میں سامنے آ جاتے ہیں “

      تو آپ کی عقل تسلیم کرتی ہے یہ بات کہ آج تک کائنات کا ایسا کوئی جھوٹ نہیں انسان کا بولا ہوا ہوگا جو تاریخ یا ریسرچ کی روشنی میں پکڑا نا گیا ہو؟

      ایک نہیں بہت سے ہوں گے ،جنکا آج تک انسان شاید انکار نہیں کر سکتا ہوگا،چونکہ وہ پکڑے نہیں گئے ابھی تک،تو میں آپکو ان کا حوالہ نہیں دے سکتا😂،

      میں بس ایک منطقی بات کرنا چاہ رہا ہوں کہ ایسے بے شمار واقعات تاریخ میں موجود ہیں اور ہوں گے جنکے بارے میں دی گئ موجودہ معلومات پر سمجھ نا آنے کے باوجود انسانی ذہن کی یہ استنباط کرلینا مجبوری بن جاتی ہے کہ کم و بیش ایسا ہی ہوگا،


      اس کے بجائے علم ان عقلی قیاسات سے” تشکیل پاتا ہے جو حقیقت میں مشاہدے پر “مبنی ہوتے ہیں۔

      میں حال میں اپ سے اس عقلی داستان کا سب سے بڑا مشاہدہ اور تجربہ کہیں اور کیا جانا ؟بذات خود موجودہ اور ہمیشہ کا انسانی رویہ کی مثال اور ایک سیاسی لیڈر وغیرہ کی مثال دے کر بھی واضح کر چکا ہوں،


      اور میری سمجھ سے بالا تر ہوا جاتا ہے کہ آپ کو میری بات کیوں سمجھ میں نہیں آ پا رہی،یا آپ میرے جوتے میں کھڑا ہوکر میرے سوالوں کو سمجھ کر انکا جواب کوں نہیں دے پا رہے؟



  • Faisal Haroon

    Moderator May 6, 2022 at 3:11 pm

    میں یہ بات بھی شامل کرنا چاہوں گا کہ اس کائنات اور اس کائنات کے اندر ہمارا وجود خدا کے تصور کے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا۔ اگر اس سلسلے میں کوئی متبادل نظریہ ہوتا تو ہم دونوں کا موازنہ کرتے اور صحیح کا تعین کرتے تاہم ایسا نہیں ہے۔ بہت سے لوگ سوچتے ہیں کہ سائنس ایسے متبادل نظریات فراہم کرتی ہے لیکن میں آپ کو بہت اعتماد سے بتا سکتا ہوں کہ ایسا نہیں ہے۔ مجھے مذہب کے ساتھ ساتھ سائنس میں بھی بہت دلچسپی ہے اس لیے میں تمام نئے نظریات پر نظر رکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اگر ایک الگ تھریڈ میں آپ ارتقاء اور بگ بینگ جیسے سائنسی نظریات پر بحث کرنا چاہتے ہیں تو میں آپ کو دکھا سکتا ہوں کہ وہ خدا کے تصور کے بغیر کیسے مضحکہ خیز ہیں۔

  • Ramzan Zahoor

    Member May 6, 2022 at 4:03 pm

    میں گزارش کرتا ہوں کہ آپ میرے سب سے پہلے کیے گئے سوال کو ایک مرتبہ پھر پڑھ کر دیکھیے،کہ گفتگو اس قدر آگے نکل چکی ہے کہ آپ اسے مزید اچھے سے سمجھ سکیں گے۔

  • Faisal Haroon

    Moderator May 6, 2022 at 5:04 pm

    مذہب کی دلیل ہراری کے بے بنیاد قیاس آرائیوں کی طرح نہیں ہے۔ اس لیے میں آپ سے بار بار درخواست کرتا رہا ہوں کہ سمجھنے کے لیے پہلے قرآن کا کوئی اچھا ترجمہ پڑھ لیں۔ آپ مسلسل قیاس آرائیوں کو علم کے ساتھ برابر کر رہے ہیں جو کہ بالکل غلط ہے۔

    جہاں تک اٹھائے گئے سوالات کا تعلق ہے ان کا جواب مذہب نے پہلے ہی دیا ہے۔ ان کا جواب یا تو واضح طور پر قرآن میں دیا گیا ہے یا جوابات ہمارے مشاہدے سے یا جو کچھ بھی قرآن بیان کرتا ہے اس سے منطقی استدلال ہیں۔ اگر آپ چاہیں تو ہر سوال کو الگ الگ پوسٹ کر سکتے ہیں۔

    آخر میں آپ کی بات کو سمجھنے سے قاصر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ علم پر مبنی نہیں ہے۔ اس کے بجائے یہ بے بنیاد منطق اور قیاس آرائیوں پر مبنی ہے۔ میں نے پہلے بھی آپ کو مشورہ دیا ہے کہ آپ کو یہ سمجھنے میں کچھ وقت گزارنا چاہیے کہ سچائیاں کیسے اخذ کی جاتی ہیں۔ اس کے بجائے آپ ہراری کی کتاب کے نکات پر اصرار کرتے رہتے ہیں حالانکہ علم کی دنیا میں انہیں بے بنیاد اور لغو سمجھا جاتا ہے۔

    میرا خیال ہے کہ میں نے اس بحث پر کافی وقت صرف کیا ہے۔ کم از کم اس وقت کسی اور بات کے مزید نتیجہ خیز ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔

    • Ramzan Zahoor

      Member May 6, 2022 at 5:35 pm

      اب آپ جب دین کو عین عقلی استدلال پر پورا پورا اترنے والے قصے کو جو پیش کرتے چلے ائے ہیں،دبانا چاہتے یا اپنے تجربوں،اپنی مشاہدات،اور اپنی منطق کو ہی ٹھیک علم قرار دے کر بغیر کوئ وجہ بتائے ہوۓ یا استدلال پیش کیے ہوئے،یا ان سوالوں کا جواب دیے ہوئے جو میں نے بھی آپکے ہر جواب کے آگے عاجزا پیش کیے ،دوسرے کی منطق،مشاہدے ،تجربے اور بات(ہراری کی ہی کہ لو) کو بے بنیاد قرار دے کر یہ فیصلہ کر ہی چکے ہیں ،

      اور سمجھ چکے ہیں کہ آپ کافی وقت سرف بھی کر چکے ہیں،اور اب کسی اور بات کو نتیجہ خیز بھی نہیں سمجھتے تو یہ بھی اپکی اپنی مرضی ہے،

      میں ایک طالب علم کی حیثیت سے یہاں موجود ہوں ، لیکن میں آپکے لاجیکل دلائل کی بجائے مجھے کی گئ تلقینوں پر بہت زیادہ ،مطمئن نہیں ہوں شاید

      آپکی جگہ کوئ بھی آکر مجھ سے بات کرے گا تو میں اسکی بات پورے شوق سے سن کر سمجھنے کی اتنی ہی کوشش کروں گاجتنی کہ اب کر چکا ہوں۔

      آپکا مجھے اتنے سارے دیے گئے وقت کا بہت ۔بہت شکریہ


  • Junaid Arshad

    Member May 6, 2022 at 10:12 pm

    Review of Sapiens by Dr. Christopher Hallpike:

    …one has often had to point out how surprisingly little (Harari) seems to have read on quite a number of essential topics. It would be fair to say that whenever his facts are broadly correct they are not new, and whenever he tries to strike out on his own he often gets things wrong, sometimes seriously…. We should not judge Sapiens as a serious contribution to knowledge but as ‘infotainment’, a publishing event to titillate its readers by a wild intellectual ride across the landscape of history, dotted with sensational displays of speculation, and ending with blood-curdling predictions about human destiny.

    Casey Luskin:

    Religion is much more than group cooperation. For many religions it’s all about prayer, sacrifice, and total personal devotion to a deity. How do you explain that in evolutionary terms? How many followers of a religion have died — i.e., became evolutionary dead ends — for their beliefs? Which “selfish genes” drive young males into monasteries to avoid sexual relationships and pray? How does it help society put food on the table if your religion demands sacrificing large numbers of field animals to a deity? What about requiring that the rich and the poor donate wealth to build temples rather than grain houses — does that foster the growth of large societies? And what about that commandment about taking a weekly day off, with no fire or work, to worship God? That was never very good for cooperation and productivity. How about the religious ascetic who taught his followers to sell their possessions, give to the poor, and then chose to die at the hands of his worst enemies, believing that his own death would save them? How did he get such a big following?… problem of inadequate datasets undoubtedly plagues many of Harari’s claims about the evolutionary stages of religion. Perhaps there are some societies that progressed from animism to polytheism to monotheism. But anthropologists and missionaries have also reported finding the opposite — that some groups that practice animism today remember an earlier time when their people worshipped something closer to a monotheistic God.

    Strawson in The Guardian:

    … the attractive features of the book are overwhelmed by carelessness, exaggeration and sensationalism. Never mind his standard and repeated misuse of the saying “the exception proves the rule” (it means that exceptional or rare cases test and confirm the rule, because the rule turns out to apply even in those cases). There’s a kind of vandalism in Harari’s sweeping judgments, his recklessness about causal connections, his hyper-Procrustean stretchings and loppings of the data. Take his account of the battle of Navarino. Starting from the fact that British investors stood to lose money if the Greeks lost their war of independence, Harari moves fast: “the bond holders’ interest was the national interest, so the British organised an international fleet that, in 1827, sank the main Ottoman flotilla in the battle of Navarino. After centuries of subjugation, Greece was finally free.” This is wildly distorted – and Greece was not then free.

    Charles Mann in The Wall Street Journal:

    …There’s a whiff of dorm-room bull sessions about the author’s stimulating but often unsourced assertions.

  • Dr. Irfan Shahzad

    Scholar May 8, 2022 at 12:06 am

You must be logged in to reply.
Login | Register