Ask Ghamidi

A Community Driven Discussion Portal
To Ask, Answer, Share And Learn

Forums Forums General Discussions Taking Slaves From War

  • Taking Slaves From War

    Posted by Taimur Chaudhry on August 9, 2022 at 6:06 am

    Ghamidi sahb has said that the Quran forbade making captives of war into slaves before Badr. However how come there are numerous mentions of the sahaba taking female captives/being given by the Prophet?

    Examples include Juwarriyah RA initially being given as a slave to Thabit bin Qays; the daughter of Umm Qirfa being given to Salama al Akwa and then Hazn bin Abu Wahab; the 6000 of Banu Hawazin that would’ve remained captives if they hadn’t payed ransom to be freed.


    And then especially the hadith of practicing coitus interruptus with the captives of Banu Mustaliq? + if the Prophet hadn’t married Juwarriyah RA there was no axiomatic precedent for the sahaba to still have released the captives of Mustaliq. Would they not be classified as ‘what your right hand possesses’?

    Dr. Irfan Shahzad replied 1 year, 8 months ago 2 Members · 1 Reply
  • 1 Reply
  • Taking Slaves From War

  • Dr. Irfan Shahzad

    Scholar August 10, 2022 at 1:50 am

    Ghamidi saheb writes in his book Maqaamaat:

    روایات کیا کہتی ہیں، تو اُن کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے تنہا سیدہ جویریہ کا واقعہ کافی ہے۔وہ کوئی عام خاتون نہیں ہیں،اُنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں شامل ہونے کا شرف حاصل ہوا ہے۔اُن کا واقعہ اِس لحاظ سے بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے کہ اُن کی رہائی کے طفیل کم و بیش سو خاندانوں کے قیدی رہا ہوئے۔ لیکن روایتوں کا حال کیا ہے؟ ملاحظہ فرمائیے:

    ایک روایت یہ بتاتی ہے کہ اُنھیں لونڈی بنا کر ثابت بن قیس کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ ثابت رضی اللہ عنہ سے اُنھوں نے درخواست کی کہ مکاتبت کر لیں۔ وہ راضی ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں کہ مکاتبت کی رقم ادا کرنے کے لیے اُن کی مدد کی جائے۔ حضور نے فرمایا: اگر اِس سے بہتر معاملہ کیا جائے تو قبول کروگی؟ اُنھوں نے پوچھا: وہ کیا ہو سکتا ہے؟ فرمایا: میں تمھاری طرف سے مکاتبت کی رقم ادا کر کے تم سے نکاح کر لیتا ہوں۔

    دوسری یہ بتاتی ہے کہ اِس سے پہلے ہی اُن کے والد پہنچ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: میری بیٹی کنیز نہیں بن سکتی۔ میری شان اِس سے بالاتر ہے۔ آپ اُسے رہا کر دیں۔آپ نے فرمایا: کیا یہ بہتر نہیں کہ خود بیٹی سے پوچھ لیا جائے؟ والد نے پوچھا تو اُنھوں نے کہا: میں حضور کی خدمت میں رہنا پسند کروں گی۔

    تیسری یہ بتاتی ہے کہ اِن میں سے کوئی بات بھی نہیں ہوئی۔ وہ قیدی تھیں، اُن کے والد آئے، زر فدیہ ادا کیااور اُنھیںآزاد کرا لیا۔ اِس کے بعد اُنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے نکاح میں دے دیا۔

    یہی معاملہ اُن کے ساتھ دوسرے قیدیوں کی رہائی کا ہے۔ ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں نے اُنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے رشتے دار ہو جانے کی وجہ سے رہاکیا اور دوسری سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضور ہی کے پاس تھے۔ آپ نے اُنھیں سیدہ کا مہر قرار دے کر آزاد کر دیا*۔

    یہ مشتے نمونہ از خروارے ہے۔ اِس سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ تاریخی واقعات کے سمجھنے میں اِن روایتوں پر کہاں تک اعتماد کیا جا سکتا ہے۔جن لوگوں نے دقت نظر کے ساتھ اِن کا مطالعہ کیا ہے، وہ جانتے ہیں کہ راویوں کا فہم، اُن کاذہنی اور سماجی پس منظر اور اُن کے دانستہ یا نادانستہ تصرفات بات کو کیا سے کیا بنا دیتے ہیں۔ دین کے طالب علموں کے لیے ہمارا مشورہ یہ ہے کہ روایتوں سے قرآن کو سمجھنے کے بجاے اُنھیں خود روایتوں کو قرآن کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

You must be logged in to reply.
Login | Register