عیسی علیہ السلام کی بعثت بنی اسرائیل کے لیے تھی۔ اس وقت ہر طرف قدیم سے مختلف شرکیہ مذاہب پھیلے ہوئے تھے۔ جن کی تفصیل تاریخی کتب میں مل جاتی ہے۔
جن لوگوں تک رسول اللہ ﷺ کی خبر نہیں پہنچی، ان کی جواب دہی ان کی فطرت کی بنیاد پر ہوگی جس میں ایک خدا کا کا تسلیم کرنا لازم ہے، شرک کا کوئی عقلی جواز نہیں جواب دہی کا دوسرا پہلو اخلاقیات ہیں۔ اچھے اور برے کی تمیز انسان کو معلوم ہے۔ اگر وہ اپنے ضمیر کے خلاف کچھ کرے گا تو خدا کے ہاں جواب دہ ہوگا۔
متعلقہ آیات ملاحظہ کیجیے۔
وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ ۛ شَهِدْنَا ۛ أَن تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَٰذَا غَافِلِينَ ﴿١٧٢﴾ أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَكَ آبَاؤُنَا مِن قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِّن بَعْدِهِمْ ۖ أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ
(اے پیغمبر)، اِنھیں وہ وقت بھی یاد دلاؤ، جب تمھارے پروردگار نے بنی آدم کی پشتوں سے اُن کی نسل کو نکالا اور اُنھیں خود اُن کے اوپر گواہ ٹھیرایا تھا۔ (اُس نے پوچھا تھا): کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں؟ اُنھوں نے جواب دیا: ہاں، ( آپ ہی ہمارے رب ہیں )، ہم اِس کی گواہی دیتے ہیں۔ یہ ہم نے اِس لیے کیا کہ قیامت کے دن تم کہیں یہ نہ کہہ دو کہ ہم تو اِس بات سے بے خبر ہی رہے۔
وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا ﴿٧﴾ فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا ﴿٨﴾ قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا ﴿٩﴾ وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا
اور نفس اور جیسا اُسے سنوارا،
پھر اُس کی بدی اور نیکی اُسے سجھا دی
(کہ روز قیامت شدنی ہے، اِس لیے) فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا۔
بَلِ الْإِنسَانُ عَلَىٰ نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ ﴿١٤﴾ وَلَوْ أَلْقَىٰ مَعَاذِيرَهُ
بلکہ حق یہ ہے کہ انسان خود اپنے اوپر گواہ ہے،
اگرچہ وہ اپنے لیے کتنے ہی بہانے [9] بنائے۔