کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ تَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ ؕ وَ لَوۡ اٰمَنَ اَہۡلُ الۡکِتٰبِ لَکَانَ خَیۡرًا لَّہُمۡ ؕ مِنۡہُمُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ وَ اَکۡثَرُہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ
(ایمان والو، اِس وقت تو اللہ کی عنایت سے) تم ایک بہترین جماعت ہو جو لوگوں پر حق کی شہادت کے لیے برپا کی گئی ہے۔ تم بھلائی کی تلقین کرتے ہو، برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر سچا ایمان رکھتے [930] ہو۔ اور یہ اہل کتاب بھی (قرآن پر) ایمان لاتے تو اِن کے لیے بہتر ہوتا۔ (اِس میں شبہ نہیں کہ) اِن میں ماننے والے بھی ہیں، لیکن (افسوس کہ) اِن میں زیادہ نافرمان ہی ہیں۔
(Quran 3:110)
(Excerpt from Al-Bayan: Javed Ahmed Ghamidi)
[930]. یہ بنی اسمٰعیل کے لیے تسلی اور بشارت ہے کہ ایمان و عمل کے لحاظ سے اِس وقت وہ خیرامت ہیں، لہٰذا اُن کا کوئی دشمن بھی اُن کا بال بیکا نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ کا یہی قانون بنی اسرائیل کے لیے بھی تھا، لیکن افسوس کہ اُن کی نافرمانیوں نے اُنھیں ہمیشہ کے لیے اللہ کے غضب کا مستحق بنا دیا ہے۔ اِس میں، ظاہر ہے کہ بنی اسمٰعیل کے لیے بھی تنبیہ ہے کہ دنیا کی امامت کا جو منصب اُنھیں حاصل ہوا ہے، اُس پر وہ محض نسل ونسب کی بنا پر نہیں، بلکہ علم و عمل میں نیکی اور خیر کے علم بردار ہونے کی وجہ سے سرفراز ہوئے ہیں۔ لہٰذا اُن کا یہ منصب صفات اور ذمہ داریوں کے ساتھ مشروط ہے۔ وہ اِن ذمہ داریوں کے پورا کرنے والے ہوں گے تو یہ سرفرازی اُنھیں حاصل رہے گی اور اِن سے گریز کریں گے تو لازماً اُسی انجام کو پہنچیں گے جس کو یہ اہل کتاب اللہ تعالیٰ کی طرف سے باربار کی تنبیہ کے باوجود پہنچ چکے ہیں۔
________
This status was not absolute, rather it had some pre-conditions attached to it, and whenever Bani-Ismail voilated those conditions, they were punished in this world. Please see for further details:
Discussion 75150