بعض روایات میں ایسا آتا ہے مگر علما کا ایک طبقہ لونڈی اور آزاد عورت دونوں کی عدت میں برابری کا قائل ہے۔
“محمد بن سیرین اور بعض علماء ظاہر یہ لونڈی کی اور آزاد عورت کی عدت میں برابری کے قائل ہیں ۔ ان کی دلیل ایک تو اس آیت کا عموم ہے ، دوسرے یہ کہ عدت ایک جلی امر ہے جس میں تمام عورتیں یکساں ہیں ۔ سعید ابن مسیب ، ابوالعالیہ رحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں اس عدت میں حکمت یہ ہے کہ اگر عورت کو حمل ہو گا تو اس مدت میں بالکل ظاہر ہو جائے گا ۔ سیدنا ابن مسعود کی بخاری و مسلم والی مرفوع حدیث میں ہے کہ انسان کی پیدائش کا یہ حال ہے کہ چالیس دن تک تو رحمِ مادر میں نطفہ کی شکل میں ہوتا ہے ، پھر خون بستہ کی شکل چالیس دن تک رہتی ہے پھر چالیس دن تک گوشت کا لوتھڑا رہتا ہے پھر اللہ تعالیٰ فرشتے کو بھیجتا ہے اور وہ اس میں روح پھونکتا ہے ۔ (صحیح بخاری:3208) تو یہ ایک سو بیس دن ہوئے جس کے چار مہینے ہوئے ، دس دن احتیاطاً اور رکھ دے کیونکہ بعض مہینے انتیس دن کے بھی ہوتے ہیں اور جب روح پھونک دی گئی تو اب بچہ کی حرکت محسوس ہونے لگتی ہے اور حمل بالکل ظاہر ہو جاتا ہے ۔ اس لیے اتنی عدت مقرر کی گئی «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ سعید بن مسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں دس دن اس لیے ہیں کہ روح انہی دس دِنوں میں پھونکی جاتی ہے ۔ ربیع بن انس رضی اللہ عنہ بھی یہی فرماتے ہیں ۔ امام احمد رحمہ اللہ سے ایک روایت میں یہ بھی مروی ہے تاکہ جس لونڈی سے بچہ ہو جائے اس کی عدت بھی آزاد عورت کے برابر ہے اس لیے کہ وہ فراش بن گئی اور اس لیے بھی کہ مسند احمد رحمہ اللہ میں حدیث ہے ۔ سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما نے فرمایا لوگو سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم پر خلط ملط نہ کرو ۔ اولاد والی لونڈی کی عدت جبکہ اس کا سردار فوت ہو جائے چار مہینے اور دس دن ہیں ۔ (سنن ابوداود:2308 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہ حدیث ایک اور طریق سے بھی ابوداؤد میں مروی ہے’ از جناب حسن الیاس