Ask Ghamidi

A Community Driven Discussion Portal
To Ask, Answer, Share And Learn

Forums Forums Sources of Islam Incident Of Ghadeer

  • Incident Of Ghadeer

    Umer updated 9 months, 3 weeks ago 3 Members · 4 Replies
  • Ahsan

    Moderator July 11, 2023 at 1:13 am
  • Tanveer Mughal

    Member July 11, 2023 at 2:16 am

    I want to know the context of hadith but the video link shared in reply 36171 has been expired may be. Please share some other resource.

    • Umer

      Moderator July 11, 2023 at 6:59 am

      غدیر خم

      ((antonym)’)غدیر اس آب جو یاتالاب کو کہتے ہیں جو سیلاب کے بعد نشیب میں جمع ہوجائے اور گرمیوں میں خشک ہو جائے۔عربی میں اس کے متضادو مقابل

      عِدّ ‘کا لفظ بولا جاتا ہے۔یہ وہ چشمہ یا ذخیرۂ آب ہوتا ہے جو سال بھر خشک نہیں ہوتا۔خم کے لفظی معنی ہیں :مرغیوں کا پنجرہ یا پھٹکا۔یہ ایک کنواں تھا جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتویں جد مرہ بن کعب (یا چھٹے مورث کلاب بن مرہ)نے کھدوایا تھا۔دوسری روایت کے مطابق خم اور رم مکہ و مدینہ کے مابین دو کنویں تھے جنھیں آپ کے پڑدادا ہاشم کے بھائی عبد شمس بن عبد مناف نے کھدوایا تھا۔

      ۱۸ ؍ ذی الحجہ ۱۰ھ:حجۃ الوداع سے واپسی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ و مدینہ کے مابین مقام جحفہ سے دویا تین میل پرے واقع غدیر خُم ّ(یا خَمّ) پرپہنچے تو دوبڑے بڑے اور پھیلے ہوئے درختوں کے نیچے صفائی کرنے کا حکم دیا۔درخت پر کپڑا تان کر آپ کے لیے سائے کا انتظام کیا گیا۔(نماز کے بعدصحابہ اطمینان سے بیٹھ گئے تو) آپ نے خطاب فرمایا۔گویا مجھے دنیا سے رخصت کی دعوت دی گئی اور میں نے قبول کر لی ہے۔ میں تم میں دو اہم چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں جو ایک دوسرے سے بڑھ کر اہم ہیں،اللہ کی کتاب اور میرا کنبہ، میرے اہل بیت۔ آپ نے حضرت علی کے فضائل بیان فرمائے اورقیام یمن کے دوران میں ان پر جور وجفااوربخل کے جوالزامات عائد کیے گئے تھے،ان کا جواب دیا۔ آپ نے فرمایا:اللہ میرا مولیٰ ہے اور میں ہر مومن کا دوست ہوں۔ آپ نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا:میں جس شخص کا مولیٰ اور دوست ہوں، علی بھی اس کے مولیٰ اور دوست ہیں۔ اللہ!جواسے دوست سمجھتا ہے توبھی اسے اپنا دوست بنا لے(ترمذی، رقم۳۷۱۳۔ ابن ماجہ، رقم۱۱۶۔سنن النسائی الکبریٰ، رقم۸۴۸۴۔سنن البیہقی الکبریٰ، رقم ۸۰۹۲۔ مسند احمد، رقم۱۸۴۷۹۔مستدرک حاکم، رقم ۶۲۷۲۔ المعجم الطبرانی الکبیر، رقم ۴۹۶۹۔ ابن حبان، رقم۶۹۳۱۔مسند ابویعلیٰ، رقم۵۶۷۔مسند بزار، رقم ۷۸۶)۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خطاب سے حضرت بریدہ بن حصیب اسلمی اور حضرت براء بن عازب مطمئن ہوئے اور پھر انھوں نے کبھی شکایت نہ کی۔

      شیعہ مولیٰ کو خلیفہ و حاکم کے معنی میں لے کر اس روایت کوحضرت علی کی خلافت بلا فصل کی ایک قوی دلیل سمجھتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ یہ حدیث متواتر اور مسلم ہے اور اس طرح کا فرمان نبوی کسی دوسرے صحابی کے حق میں واردنہیں ہوا اس لیے اس کی بنیاد پر عقیدہ ترتیب دیا جا سکتا ہے۔اولاً، مولیٰ کے خلیفہ وحاکم کے معنی میں استعمال ہونے کی کوئی نظیر نہیں۔ثا نیاً،اس روایت کا متواتر اور بے نقد ہونا محل نظر ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں، یہ حدیث حسن غریب ہے۔ امام بخاری کہتے ہیں،اس کی سند میں خامی ہے(التاریخ الکبیر :۱۱۹۱)۔اس کا راوی سہم مجہول ہے (التاریخ الکبیر:۵۳۵۲)۔امام بخاری لکھتے ہیں، میں نے ابوحصین کو یہ کہتے سنا، ہم نے اس روایت کا ذکر تک نہیں سنا تھا، حتیٰ کہ خراسان سے ابو اسحٰق آیا اور گلا پھاڑ پھاڑکر یہ روایت سنانے لگا اور لوگ بھی اسے بیان کرنے لگے (التاریخ الکبیر:۸۳۴۸)۔امام احمدبن حنبل نے اس نوع کی چار روایات نقل کی ہیں۔ ناقدین نے ان کی سند کا ضعف بیان کرنے کے بعد انھیں صحیح لغیرہ قرار دیا ہے۔ ابن حزم کہتے ہیں: ’من کنت مولاہ فعلی مولاہ‘والی روایت ثقہ راویوں میں سے کسی نے بیان نہیں کی۔اس سے ملتی جلتی تمام روایات جو روافض بیان کرتے ہیں، موضوع ہیں (الفصل فی الملل والنحل، وجوہ الفضل والمفاضلة بین الصحابة)۔ جمال الدین زیلعی نے اسے ضعیف قرار دے کر کہا: کئی احادیث ایسی ہیں کہ انھیں کثیر راویوں نے متعدد طرق سے نقل کیا ہے اور وہ ضعیف ہیں۔ کثرت طرق سے ان کے ضعف میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ (نصب الرأیة، اقوال العلماء فی الجهر بالبسملة واخفائها) ابن ماجہ کی روایت ۱۲۱ کو البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔اس میں مذکورہ مکمل روایت کے بجاے ’من کنت مولاہ فعلی مولاہ‘ کا ٹکڑا شامل ہے۔ ثالثاً، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آزاد کردہ حضرت زید بن حارثہ کو بھی اپنا مولا قرار دیتے ہوئے فرمایا:’انت اخونا ومولانا‘،تم میرے بھائی اور میرے دوست ہو (بخاری، رقم ۲۶۹۹۔ مسند احمد، رقم ۷۷۰۔ مستدرک حاکم، رقم ۴۶۱۴)۔

      یہی معنی حضرت علی کے بارے میں ارشادکیے گئے فرمان نبوی میں مراد ہیں۔حضرت علی بچپن سے آپ کی تربیت میں رہے اورآپ کی وفات تک آپ کا ساتھ نہ چھوڑا،چچا زاداور داماد ہونے کے ساتھ وہ آپ کے مخلص صحابی تھے،اس لیے آپ کوان سے گہری محبت تھی اور اسی کا اظہار ’من کنت مولاہ فعلی مولاہ‘ کے کلمات میں ہوا۔ اگر واقعۂ غدیر خم میں حضرت علی کی خلافت طے ہو چکی ہوتی تو حضرت عباس بن عبدالمطلب انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض وفات میں وصیت خلافت کا تقاضا کرنے کونہ کہتے اورآپ کی وفات کے بعد سقیفۂ بنی ساعدہ کے اجتماع کی ضرورت پیش نہ آتی۔حضرت حسن کے صاحب زادے حسن مثنی کہتے ہیں،اگر فرمان نبوی ’من کنت مولاه فعلی مولاہ‘ سے مراد امارت و اقتدار کی وصیت ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز، زکوٰۃ، روزہ و حج کی طرح اس کا واضح حکم صادر فرماتے، کیونکہ آپ افصح الناس تھے (طبقات ابن سعد،رقم۹۷۸)۔طبرسی کہتے ہیں: نبی صلی اﷲعلیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد وصیت میں اللہ تعالیٰ کی حجت کو صراحتاً نہیں،اشارۃ ً ثابت کیا ہے(احتجاج الطبرسی:ص۱۲۹) ۔

      ایک جھوٹی روایت حضرت ابوہریرہ کی طرف سے وضع کی گئی ہے۔ جب آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر ’من کنت مولاہ فعلی مولاہ‘ فرمایا تواللہ کا ارشاد ’اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ ‘ نازل ہوا۔ حالاں کہ قطعی طور پر ثابت ہے کہ یہ حکم ربانی حجۃ الوداع کے موقع پرنو روز پہلے عرفہ کے دن نازل ہوا۔ حضرت ابوہریرہ کی طرف سے یہ بھی نقل کیا گیا ہے، جوشخص ۱۸ ؍ ذی الحجہ، یعنی غدیر خم کے دن روزہ رکھے گا اسے ساٹھ ماہ، یعنی پانچ سال کے روزوں کا ثواب ملے گا۔اللہ!اللہ!ماہ رمضان کے فرض روزوں کا ثواب دس ماہ کے روزوں کے برابر ہے (مسلم، رقم۲۷۲۷۔سنن النسائی الکبریٰ، رقم۲۸۶۶۔ المعجم الطبرانی الکبیر، رقم ۳۹۰۸)۔اور اس ایک دن کا روزہ پانچ سال کے روزوں کا ثواب دے رہا ہے۔

      (Excerpt from Research of Dr. Waseem Mufti)

      _____

      Complete Article: حضرت علی رضی اللہ عنہ (۶)

  • Umer

    Moderator July 11, 2023 at 7:00 am

    واقعۂ غدیرخم اور ولایت علی

    سوال: غدیر خم کی روایت کی کیا حیثیت ہے اور اس کی بنا پر شیعہ حضرات اپنا جو موقف بیان کرتے اس کی کیا حقیقت ہے؟ (جہاں زیب شیروانی)

    جواب: اس روایت کی اکثر اسناد ضعیف ہیں اور بعض حسن ہیں مثلاً ترمذی،رقم ۳۶۴۶، لیکن یہ بھی غریب روایت ہے۔ اس حدیث میں اصل بات یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا کہ ’مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیُّ مَوْلَاہُ‘، ان الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ جس کا میں حلیف، یعنی دوست اور ساتھی ہوں، اس کا علی بھی حلیف ہے۔ ان الفاظ میں آپ نے حضرت علی کے بارے میں اپنے اس اعتماد کا اظہار کیا ہے کہ علی کو مجھ سے محبت ہے اور وہ تعلق کے معاملے میں مجھ سے الگ ہو کر نہیں چلیں گے۔

    شیعہ حضرات ان الفاظ کو سیاسی مفہوم دیتے ہیں، حالانکہ ان الفاظ کا یہ مطلب نہیں ہو سکتا کہ جن لوگوں کا آج میں امیر ہوں ، کل ان کا امیر علی ہو گا، کیونکہ ان الفاظ کے مطابق یہ ولایت دونوں میں بہ یک وقت موجود ہونی چاہیے، یعنی دونوں حضرات کو ایک ہی وقت میں یہ ولایت حاصل ہونی چاہیے۔ چنانچہ ظاہر ہے کہ یہ ولایت کسی صورت میں بھی سیاسی نہیں ہو سکتی،کیونکہ نظم اجتماعی میں لازماً ایک وقت میں ایک ہی امیر ہوتا ہے۔

    (Muhammad Rafi Mufti)

    _____

    Source: واقعۂ غدیرخم اور ولایت علی

The discussion "Incident Of Ghadeer" is closed to new replies.

Start of Discussion
0 of 0 replies June 2018
Now