Ask Ghamidi

A Community Driven Discussion Portal
To Ask, Answer, Share And Learn

Forums Forums Sources of Islam Quran 46 :10 – Proof That Shahdah Here Refers To That Of Prophet Jesus (SWS)

Tagged: , ,

  • Quran 46 :10 – Proof That Shahdah Here Refers To That Of Prophet Jesus (SWS)

  • Umer

    Moderator July 21, 2023 at 2:05 am

    Imam Amin Ahsan Islahi While explaining this point, writes:

    شاہد سے کون مراد ہے؟ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ شاہد سے کس کی طرف اشارہ ہے۔ اس سوال کے تین جواب ہمارے مفسرین نے دیے ہیں۔ عام رائے تو یہ ہے کہ اس سے مراد حضرت عبداللہ بن سلامؓ ہیں لیکن ایک دوسرے گروہ نے اس پر یہ اعتراض وارد کیا ہے کہ عبداللہ بن سلامؓ اس سورہ کے نزول کے بہت بعد مدینہ میں اسلام لائے تو اس مکی سورہ میں ان کے اسلام سے پہلے ہی ان کی گواہی کے حوالہ دینے کے کیا معنی، جب کہ کوئی ادنیٰ قرینہ بھی یہاں اس بات کا نہیں ہے کہ کم از کم اس آیت ہی کو مدنی قرار دیا جا سکے۔ دوسرے گروہ کے نزدیک اس سے اشارہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف ہے لیکن یہ قول بھی کچھ وزنی نہیں ہے۔ آگے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور تورات کا ذکر قرآن کے حق میں ان کی شہادت ہی کا حوالہ دینے کے لیے مستقلاً، نام کی تصریح کے ساتھ، آ رہا ہے تو یہاں اشارے کی صورت میں ان کا حوالہ دینے کی کیا ضرورت ہے؟ ایک تیسرے گروہ نے اس کو اسم جنس کے مفہوم میں لے کر اس سے ان عام لوگوں کی شہادت مراد لی ہے جو بنی اسرائیل میں سے قرآن پر ایمان لائے۔ اس گروہ میں ابن کثیرؒ بھی شامل ہیں لیکن یہ قول بالکل ہی بے بنیاد ہے۔ اس کو اسم جنس کے مفہوم میں لینا قواعد زبان کے بالکل خلاف ہے۔ لیکن ہم اس غیر ضروری بحث میں یہاں پڑنا نہیں چاہتے۔ اسلوب کلام یہاں خود شاہد ہے کہ نکرہ تفخیم شان کے لیے ہے نہ کہ تحقیر و تعمیم کے لیے۔ اس وجہ سے ضروری ہے کہ یہ اشارہ کسی ایسے شاہد کی طرف ہو جس کی شخصیت اور شہادت دونوں کا مرتبہ ایسا ہو کہ اس کو بطور ایک دلیل کے پیش کیا جاسکے۔ ہمارے نزدیک یہ اشارہ سیدنا مسیح علیہ السلام کی طرف ہے۔ اس کے وجوہ مندرجہ ذیل ہیں: ۱۔ پہلی بات یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنی بعثت کا خاص مقصد ہی یہ بتایا ہے کہ میں آنے والے کی راہ صاف کرنے آیا ہوں۔ آپ کے بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی اور آپؐ آخری نبی بھی ہیں اور آخری رسول بھی۔ اس وجہ سے اس ’آنے والے‘ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور کو مراد لینے کی کوئی ادنیٰ گنجائش بھی نہیں ہے۔ انجیلوں کا مطالعہ کیجیے تو یہ بات صاف نظر آئے گی کہ جس طرح حضرت مسیح علیہ السلام کی بعثت سے پہلے اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰؑ کو حضرت مسیح کی بشارت دینے کے لیے مبعوث فرمایا اسی طرح حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے حضرت مسیح علیہ السلام کو مبعوث فرمایا کہ وہ آنے والے کی راہ صاف کریں۔ انجیلوں میں اصلی مضمون جو گوناگوں اسلوبوں سے سامنے آتا ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت ہی ہے۔ استاذ امامؒ نے خاص اس موضوع پر انگریزی میں ایک رسالہ لکھا ہے کہ انجیلوں کا اصل مقصد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف اور تعارف ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام نے جس آسمانی بادشاہت کا بار بار ذکر کیا ہے اور اس کی جو تمثیلیں بیان فرمائی ہیں وہ تمام تر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی دعوت ہی پر منطبق ہوتی ہیں۔ ۲۔ دوسری اہم چیز یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت اگرچہ تورات اور زبور وغیرہ میں بھی ہے جن کے حوالے ہم پچھلی سورتوں میں نقل کر آئے ہیں لیکن حضرت مسیح علیہ السلام نے نام کی تصریح کے ساتھ آپ کی بشارت دی ہے۔ سورۂ صف میں اس کا حوالہ یوں آیا ہے:

    وَإِذْ قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ یَا بَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ إِنِّیْ رَسُولُ اللَّہِ إِلَیْْکُم مُّصَدِّقاً لِّمَا بَیْْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاۃِ وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ یَأْتِیْ مِن بَعْدِیْ اسْمُہُ أَحْمَدُ فَلَمَّا جَاء ہُم بِالْبَیِّنَاتِ قَالُوا ہَذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ (الصف : ۶) ’’اور یاد کرو جب کہ عیسیٰ بن مریم نے کہا کہ اے بنی اسرائیل میں اللہ کی جانب سے تمہاری طرف رسول ہو کر آیا ہوں، مصداق بن کر ان پیشین گوئیوں کا جو میرے پہلے سے تورات میں موجود ہیں اور خوش خبری دیتا ہوا ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا، جس کا نام احمد ہو گا۔ پس جب وہ کھلی نشانیاں لے کر آیا تو انھوں نے کہا کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔‘‘

    قرآن نے اس آیت میں جس بشارت کا حوالہ دیا ہے وہ انجیلوں میں موجود ہے۔ بعض انجیلوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام نامی کی تصریح بھی باربار وارد ہوئی ہے۔ مثلاً برناباس کی انجیل میں ۔۔۔ عیسائی اسی وجہ سے اس انجیل کو مستند نہیں مانتے لیکن اس سے کچھ زیادہ فرق نہیں پڑتا، دوسری انجیلوں میں بھی آپ کا حوالہ موجود ہے۔ اگرچہ نام غائب کر کے صرف صفات کا حوالہ باقی رہنے دیا گیا ہے اور ترجموں کے ذریعہ سے ان صفات کو بھی مسخ و محرف کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تاہم جو شخص ایمان داری کے ساتھ ان پر غور کرے گا وہ یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی دوسرا ان کا مصداق نہیں ہو سکتا۔ یہاں اشارے پر قناعت کیجیے۔ ان شاء اللہ سورۂ صف کی تفسیر میں اس مسئلہ پر ہم مفصل بحث کریں گے۔ ۳۔ تیسری چیز یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی پیشین گوئیوں میں قرآن، قرآن کی دعوت، اس دعوت کے مزاج، دنیا پر اس دعوت کے غلبہ اور اس غلبہ کے مراحل و مدارج کا نہایت صاف الفاظ میں ذکر فرمایا ہے۔ سورۂ اعراف کی تفسیر میں ہم بعض چیزوں کا حوالہ دے چکے ہیں۔ آگے سورۂ فتح کی آیت ۲۹ کے تحت بھی ہم اس مسئلہ پر بحث کرنے والے ہیں۔ قارئین کے اطمینان کے لیے بعض حوالے یہاں بھی ہم نقل کرتے ہیں:

    ’’یسوع نے ان سے کہا کہ کیا تم نے کتاب مقدس میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو معاروں نے رد کیا۔ وہی کونے کے سرے کا پتھر ہو گیا۔ یہ خداوند کی طرف سے ہوا اور ہماری نظر میں عجیب ہے؟ اس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہی تم سے لے لی جائے گی اور اس قوم کو جو اس کے پھل لائے دے دی جائے گی۔ اور جو اس پتھر پر گرے گا ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا لیکن جس پر وہ گرے گا اسے پیس ڈالے گا۔‘‘ (متی: باب ۲۱: ۴۱-۴۴)

    ’’اور میں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے۔‘‘ (یوحنا: باب ۱۴: ۱۷)

    ’’اس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گا کیونکہ دنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ سے اس کا کچھ نہیں۔‘‘ (یوحنا: باب ۱۴: ۳۱)

    اسلامی دعوت کے تدریجی فروغ کی طرف بھی متعدد تمثیلوں میں اشارے موجود ہیں۔ ان میں سے ایک تمثیل جس کی طرف سورۂ فتح میں قرآن نے بھی اشارہ کیا ہے، یہ ہے:

    ’’اس نے ایک اور تمثیل ان کے سامنے پیش کر کے کہا کہ آسمان کی بادشاہی اس رائی کے دانے کی مانند ہے جسے کسی آدمی نے لے کر اپنے کھیت میں بو دیا۔ وہ سب بیجوں سے چھوٹا تو ہے مگر جب بڑھتا ہے تو سب ترکاریوں سے بڑا اور ایسا درخت ہو جاتا ہے کہ ہوا کے پرندے آ کر اس کی ڈالیوں پر بسیرا کرتے ہیں۔‘‘ (متی: باب ۱۳: ۳۱-۳۲)

    ۴۔ چوتھی اہم چیز یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اس واضح شہادت کا یہ اثر تھا کہ عیسائیوں میں سے جو لوگ اصل نصرانیت پر قائم رہے، یعنی ان کے خلیفہ صادق شمعون کے پیرو، وہ قرآن کے نزول کے بعد بڑے جوش و خروش سے اس پر ایمان لائے اور قرآن نے نہایت شان دار الفاظ میں ان کی تعریف کی ہے۔ سورۂ مائدہ میں اس گروہ کا ذکر ان الفاظ میں آیا ہے:

    لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِیْنَ آمَنُواْ الْیَہُودَ وَالَّذِیْنَ أَشْرَکُواْ وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَہُمْ مَّوَدَّۃً لِّلَّذِیْنَ آمَنُواْ الَّذِیْنَ قَالُوَاْ إِنَّا نَصَارَی ذَلِکَ بِأَنَّ مِنْہُمْ قِسِّیْسِیْنَ وَرُہْبَاناً وَأَنَّہُمْ لاَ یَسْتَکْبِرُونَ ۵ وَإِذَا سَمِعُواْ مَا أُنزِلَ إِلَی الرَّسُولِ تَرَی أَعْیُنَہُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُواْ مِنَ الْحَقِّ یَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاہِدِیْنَ (المائدہ: ۸۲-۸۳) ’’تم اہل ایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پاؤ گے اور اہل ایمان کی محبت میں سب سے قریب تر ان لوگوں کو پاؤ گے جو یہ کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ان میں علماء اور راہب ہیں اور وہ تکبر کرنے والے نہیں ہیں۔ یہ لوگ جب اس چیز کو سنتے ہیں جو رسول کی طرف اتاری گئی ہے تو حق کو پہچان لینے کے سبب سے تم دیکھتے ہو کہ اُن کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہو جاتی ہیں۔ وہ پکار اٹھتے ہیں کہ اے رب ہم ایمان لائے تو ہم کو تو حق کی گواہی دینے والوں میں لکھ۔‘‘

    تدبر قرآن میں ان آیات کی تفسیر غور سے پڑھ لیجیے۔ نصاریٰ کی تاریخ سے لوگ اچھی طرح واقف نہیں ہیں اس وجہ سے ان آیات کا صحیح مفہوم ان پر واضح نہیں ہو سکا۔ یہ پال کے پیروؤں کی تعریف نہیں ہے بلکہ شمعون کے پیروؤں کی ہے۔ پال کے پیرو اپنے آپ کو نصاریٰ کہتے بھی نہیں۔ وہ اس لفظ کو حقیر سمجھتے ہیں اور اس کی جگہ انھوں نے اپنے لیے مسیحی کا لفظ اختیار کیا ہے۔ شمعون کے پیرو بے شک اپنے آپ کو نصاریٰ کہتے تھے۔ یہ لوگ اس شہادت کے حامل رہے جو سیدنا مسیح علیہ السلام نے آخری رسول کی بعثت کے باب میں دی تھی اور جب وقت آیا تو انھوں نے پورے جوش و خروش اور نہایت سچے جذبۂ ایمانی کے ساتھ اس کی شہادت دی۔ اسی چیز کی طرف ’رَبَّنَا آمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاہِدِیْنَ‘ کے الفاظ اشارہ کر رہے ہیں۔ یہ لوگ اس تکبر میں مبتلا نہیں ہوئے جس میں پال اور اس کے پیرو مبتلا ہوئے اس وجہ سے اسلام کی دولت سے بہرہ مند ہوئے۔ انہی لوگوں کے باب میں حضرت مسیح علیہ السلام نے پیشین گوئی فرمائی تھی کہ ’’مبارک ہیں وہ جو دل کے غریب ہیں، آسمان کی بادشاہی میں وہی داخل ہوں گے۔‘‘ اوپر سورۂ مائدہ کی آیت میں ’وَأَنَّہُمْ لاَ یَسْتَکْبِرُوۡنَ‘ کے الفاظ سے ان کے اسی وصف کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔ اس تفصیل سے یہ حقیقت واضح ہوئی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شہادت کی نوعیت ایک عام شہادت سے بالکل مختلف ہے۔ ان کی بعثت ہی خاص اس مقصد سے ہوئی تھی کہ وہ آپؐ کی راہ صاف کریں اور خلق کو اس آسمانی بادشاہی کی بشارت دیں جس کا آپؐ کے ذریعہ سے ظہور ہونے والا تھا۔ اس حوالہ سے قرآن نے مشرکین پر بھی حجت قائم کی ہے اور اہل کتاب پر بھی۔ ہم پیچھے ذکر کر آئے ہیں کہ دعوت کے اس دور میں قریش کو اہل کتاب کی پشت پناہی بھی حاصل ہو گئی تھی اس وجہ سے ان کا حوصلہ بہت بڑھ گیا تھا۔ قرآن نے یہاں یہی دکھایا ہے کہ اسلام کی مخالفت کے جنون میں آج یہودی اور مسیحی جو حرکتیں چاہیں کریں لیکن بنی اسرائیل کا ایک عظیم شاہد اس حق کی نہایت آشکارا الفاظ میں شہادت دے چکا اور اس پر ایمان لا چکا ہے۔ اس کے ایمان اور اس کی شہادت کے بعد جو لوگ محض استکبار کی بنا پر اس حق کی مخالفت کر رہے ہیں وہ اپنا انجام اچھی طرح سوچ لیں۔

  • Saiyed juned Alimiya

    Member July 21, 2023 at 5:43 am

    Ji jazakomullah

You must be logged in to reply.
Login | Register