دینی احکام یوں عقلی بنیادوں ثابت نہیں ہوتے۔ یعنی ایک چیز میری عقل کو اپیل کر رہی ہے تو مجھے یہ حق نہیں کہ اسے دینی حکم بنا کر پیش کروں۔ مولویوں کو اگر ایسا لگتا ہے تو اسے اپنی راے بنا کرپیش کریں۔
اہل علم خود کوئی اتھارٹی نہیں۔ انھیں قرآن و سنت سے دلیل دینا پڑتی ہے۔
رہا رسول اکرم کا دور تو اس دور میں بھی زنا بالرضا، زنا بالجبر، بد نظری اور شہوت کے متعدد واقعات نقل ہوئے ہیں۔ ایسا کوئی دور نہیں گزرا جہاں یہ سب نہ ہو۔ قرآن ہی میں موجود ہے کہ جو لوگ نکاح کی استطاعت نہیں رکھتے وہ صبر سے کام لیں۔ چنانچہ ایسے لوگ تھے جو نکاح نہیں کر سکتے تھے۔ دینی احکام ذاتی تاثرات یا ذوق پر نہیں بنائے جا سکتے۔