Ask Ghamidi

A Community Driven Discussion Portal
To Ask, Answer, Share And Learn

Forums Forums Sources of Islam Quran 38:24 – Forgiveness Sought By Prophet David (sws)

Tagged: ,

  • Quran 38:24 – Forgiveness Sought By Prophet David (sws)

    Posted by Muhammad Talha on November 3, 2023 at 6:59 am

    قَالَ لَقَدۡ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعۡجَتِكَ إِلَىٰ نِعَاجِهِۦۖ وَإِنَّ كَثِیرࣰا مِّنَ ٱلۡخُلَطَاۤءِ لَیَبۡغِی بَعۡضُهُمۡ عَلَىٰ بَعۡضٍ إِلَّا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ وَقَلِیلࣱ مَّا هُمۡۗ وَظَنَّ دَاوُۥدُ أَنَّمَا فَتَنَّـٰهُ فَٱسۡتَغۡفَرَ رَبَّهُۥ وَخَرَّ رَاكِعࣰا وَأَنَابَ ۩﴿ ٢٤ ﴾

    • Dr. Mustafa Khattab:

    David ˹eventually˺ ruled, “He has definitely wronged you in demanding ˹to add˺ your sheep to his. And certainly many partners wrong each other, except those who believe and do good—but how few are they!” Then David realized that We had tested him so he asked for his Lord’s forgiveness, fell down in prostration, and turned ˹to Him in repentance˺.

    Sad, Ayah 24

    What was the test here and why did he ask for forgiveness, didn’t he make the right judgement?

    Umer replied 5 months, 3 weeks ago 2 Members · 1 Reply
  • 1 Reply
  • Quran 38:24 – Forgiveness Sought By Prophet David (sws)

    Umer updated 5 months, 3 weeks ago 2 Members · 1 Reply
  • Umer

    Moderator November 6, 2023 at 1:43 am

    Ghamidi Sahab writes:

    What was this mistake? The Quran has not specified it; hence we too should not strive to look for it. What most can be said in the light of the dispute that came to his knowledge in the form of a parable is that as a king a desire probably arose in his heart to exercise control on someone’s asset for private or public use or this desire was expressed by him in words. Ultimately, he was admonished by God in this way“.

    Imam Islahi Writes:

    حضرت داؤدؑ کا تنبّہ: ’وَظَنَّ دَاوٗدُ اَنَّمَا فَتَنّٰہُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّہُ وَخَرَّ رَاکِعاً وَأَنَابَ‘۔ اب یہ حضرت داؤدؑ کی خاص صفت اوّابیّت اور انابیت کی طرف توجہ دلائی کہ وہ ایک بادشاہ ہونے کے باوجود دنیا داروں کی طرح کسی گھمنڈ اور استکبار میں مبتلا نہیں تھے بلکہ اپنے رب سے ڈرنے والے بندے تھے اس وجہ سے اس واقعہ کی روشنی میں انھوں نے خود اپنے حالات کا فوراً جائزہ لیا اور اپنی ایک کمزوری پر شرم سار ہو کر اپنے رب کے آگے استغفار و توبہ کے لیے سجدے میں گر پڑے۔ یہ کمزوری کیا تھی؟ قرآن نے اس کی کوئی تصریح نہیں کی ہے۔ یہ معاملہ حضرت داؤد علیہ السلام اور ان کے رب کے درمیان کا ایک راز ہے اس وجہ سے کسی کو اس کی کھوج کرید کا حق بھی نہیں ہے۔ ’اَنَّمَا فَتَنّٰہُ‘ کے الفاظ سے صرف یہ اشارہ نکلتا ہے کہ مقدمہ کا فیصلہ کرنے کے ساتھ ہی حضرت داؤد علیہ السلام چوکنے ہوئے کہ اسی سے ملتے جلتے ہوئے امتحان میں وہ خود بھی مبتلا ہیں۔ اگر کوئی شخص اس امتحان کو کسی واقعہ کی شکل دینے پر مصر ہی ہو تو حضرت داؤد علیہ السلام کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے وہ چاہے تو یہ فرض کر سکتا ہے کہ جس طرح بادشاہوں کو کسی شخصی یا اجتماعی ضرورت سے دوسروں کی کسی ملکیت سے تعرض کرنے کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے اسی طرح کی کوئی ضرورت حضرت داؤدؑ کو بھی پیش آئی۔ عام بادشاہ تو اس طرح کے معاملات میں کسی کی کوئی پروا نہیں کرتے۔ وہ اپنے قصر و ایوان کی سڑک سیدھی رکھنے کے لیے بے دریغ غریبوں کے جھونپڑوں پر بل ڈوزر پھروا دے سکتے ہیں لیکن حضرت داؤد علیہ السلام ایک خدا ترس بادشاہ تھے وہ اس طرح کا کوئی اقدام نہیں کر سکتے تھے اور اگر ان کے دل میں کسی کی ملکیت سے تعرض کرنے کی کوئی خواہش رہی ہو گی تو اس واقعہ سے متنبہ ہو کر اس سے بھی تائب ہو گئے اور ایک صحیح الفطرت انسان کی اصلی خوبی یہی ہے کہ وہ دوسروں کے واقعات سے خود اپنے لیے سبق حاصل کرے اور اگر اس کے اندر کوئی غلط خواہش پیدا ہوئی ہے تو اپنے رب سے معافی مانگے۔ قرآن کے الفاظ سے جو بات نکلتی ہے وہ تو زیادہ سے زیادہ اسی حد تک جاتی ہے۔ رہے وہ مزخرف قصے جو تفسیر کی بعض کتابوں میں نقل ہوئے ہیں تو ان کی نسبت ہماری دعا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو معاف کرے جو اپنی کتابوں میں ان کو نقل کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔

You must be logged in to reply.
Login | Register