Ask Ghamidi

A Community Driven Discussion Portal
To Ask, Answer, Share And Learn

Forums Forums Epistemology and Philosophy Quran 4:25 – Correct Translation Of Fa-Izaa Ehsan ("فإذا أحصن" )

Tagged: ,

  • Quran 4:25 – Correct Translation Of Fa-Izaa Ehsan ("فإذا أحصن" )

    Posted by Abdur Rahman on January 5, 2024 at 10:40 pm

    السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

    نوٹ: اس سے پہلے بھی میں نے یہ اعتراض پوسٹ کیا تھا لیکن کوئی جواب نہیں ملا اس لیے دوبارہ کر رہا ہوں۔ برائے مہربانی میرا اشکال دور فرمائیں۔

    رجم کی سزا کی بحث میں برھان صفحہ 103-104 پر غامدی صاحب سورۃ نساء کی آیت 25 میں ’ فاذا احصن‘ کا مفہوم متعین کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

    “ہمارے نزدیک ، یہ الفاظ یہاں ’ جب وہ قید نکاح میں آ جائیں‘ کے معنی میں نہیں ،بلکہ ’جب وہ پاک دامن رکھی جائیں‘ کے معنی میں استعمال ہوئے ہیں ، اور اپنا یہ موقف ہم زبان و بیان کے دلائل سے ثابت کر سکتے ہیں ۔ یہ دلائل ہم یہاں پیش کیے دیتے ہیں ۔ آیۂ زیر بحث کے جس حصے میں ’ فاذا احصن‘ کے یہ الفاظ مذکور ہیں ، وہ یہ ہے :

    فَانْکِحُوْھُنَّ بِاِذْنِ اَھْلِھِنَّ وَاٰتُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ مُحْصَنٰتٍ غَیْرَ مُسٰفِحٰتٍ وَّلَا مُتَّخِذٰتِ اَخْدَانٍ. فَاِذَآ اُحْصِنَّ فَاِنْ اَتَیْنَ بِفَاحِشَۃٍ فَعَلَیْھِنَّ نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ.(النساء۴: ۲۵)

    ’’سو اِن لونڈیوں سے نکاح کر لو، اِن کے مالکوں کی اجازت سے اور دستور کے مطابق اِن کے مہر ادا کرو، اِس حال میں کہ وہ پاک دامن رکھی گئی ہوں، نہ علانیہ بدکاری کرنے والیاں اور نہ چوری چھپے آشنائی کرنے والیاں۔ پھر جب وہ پاک دامن رکھی جائیں اور اِس کے بعد اگر بدچلنی کی مرتکب ہوں توآزاد عورتوں کی جو سزا ہے ، اُس کی نصف سزا اُن پر ہے ۔ ‘‘

    اِس آیت میں دیکھیے ، ’ فاذا احصن‘ میں ’ اذا‘ پر جو حرف ’ف‘ داخل ہے ، اُس کا تقاضا ہے کہ فعل ’احصن‘ سے یہاں وہی مفہوم مراد لیا جائے ، جو ’ مُحْصَنٰتٍ غَیْرَمُسٰفِحٰتٍ‘ میں لفظ ’محصنات‘ کا ہے ۔ عربی میں مثال کے طور پر اگر کہیں : ’اذھب الیہ راکبًا فاذا رکبت ‘ تو اِس میں ’ راکبًا‘ ا ور ’رکبت‘ کو دو مختلف معنوں میں کسی طرح نہیں لیا جا سکتا ۔ اِس جملے میں جو معنی ’راکبًا‘ سے سمجھے جائیں گے ، لازم ہو گا کہ وہی معنی ’ رکبت‘ کے بھی سمجھے جائیں۔ لہٰذا ’ فَاِذَآ اُحْصِنَّ‘ میں فعل ’احصن‘ کے معنی کا انحصار درحقیقت ’ مُحْصَنٰتٍ غَیْرَ مُسٰفِحٰتٍ‘ میں لفظ ’محصنات‘ کے مفہوم کے تعین پر ہے۔” (برھان 103-104)

    غامدی صاحب کے نزدیک فعل ’احصن‘ سے یہاں وہی مفہوم مراد لیا جائے گا جو ’محصنات‘ کا ہے پھر اس کو یوں سمجھاتے ہیں کہ “عربی میں مثال کے طور پر اگر کہیں : ’اذھب الیہ راکبًا فاذا رکبت ‘ تو اِس میں ’راکبًا‘ ا ور ’رکبت‘ کو دو مختلف معنوں میں کسی طرح نہیں لیا جا سکتا” لیکن میں سمجھتا ہوں یہ مثال صحیح نہیں ہے کیونکہ ’رکبت‘ ایسا لفظ ہے جس میں ’اذھب’ کے معنی کا احتمال نہیں ہوسکتا اس لیے لازماً ’راکبًا‘ ہی کے معنی میں ہوگا۔ اس کے برعکس ’احصن‘ ایسا لفظ ہے جس میں نکاح اور پاکدامنی دونوں کا معنی شامل ہے لہذا اس میں امر فَانْکِحُوْھُنَّ اور حال مُحْصَنٰتٍ دونوں کے معنی کا احتمال ہے۔ اب ان دونوں میں سے ’احصن‘ کس مفہوم میں استعمال ہوا ہے؟ اس کے تعین کیلیے غامدی صاحب ہی کی مذکورہ مثال کو اس طرح دیکھیے ’اذھب الیہ راکبًا فاذا۔۔۔؟ یہاں پر ‘فاذا ذھبت’ مناسب ہے یا ‘فاذا رکبت’ ؟ یعنی اگر اردو میں یہ کہیں کہ ‘ تم اس کے پاس سوار ہو کر جاؤ پھر جب تم پہنچ جاؤ’ یہ زیادہ موزوں ہے یا یہ کہ ‘ تم اس کے پاس سوار ہو کر جاؤ پھر جب تم سوار ہو جاؤ؟ بآسانی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس طرح کی مثالوں میں امر ہی کے مفہوم کا کوئی لفظ لایا جاتا ہے نہ کہ حال کے مفہوم کا۔ لہذا ’ فَاِذَآ اُحْصِنَّ‘ کا وہی معنی ہے جو فَانْکِحُوْھُنَّ کا ہے نہ کہ وہ معنی جو مُحْصَنٰتٍ کا ہے۔

    آخر میں اہل علم حضرات سے گزارش ہے کہ مجھے سمجھائیں کہ میں کس جگہ غلطی کر رہا ہوں، میرا اعتراض صحیح ہے یا نہیں؟

    Abdur Rahman replied 3 months, 3 weeks ago 3 Members · 5 Replies
  • 5 Replies
  • Quran 4:25 – Correct Translation Of Fa-Izaa Ehsan ("فإذا أحصن" )

  • Umer

    Moderator January 8, 2024 at 8:18 am

    Dr. Irfan Shahzad ( @Irfan76 ) might add further insight on the topic.

  • Dr. Irfan Shahzad

    Scholar January 8, 2024 at 11:01 pm

    مثال میں جو ترمیم کی گئی ہے وہ دو مختلف مرادوں کے جملے میں ہو سکتی ہے۔ جملہ یوں ہے کہ تم اس کے پاس سوار ہو کر جاو پھر جب سوار ہو جاو۔۔۔۔ یہاں سے آگے جملہ مکمل نہیں۔ یہ مثال ایک ہی مادہ کے دو الفاظ کو ایک سیاق میں استعمال کرنے کی ہے۔ جملہ کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ جب تک وہاں پہنچ جاو بلکہ یہ ہے جب سوار ہو جاو۔۔ اس کے بعد کوئی اور بات کرنا متکلم کے پیش نظر ہے جو اس نے کہی نہیں مثلا وہ کہ سکتا ہے کہ جب سوار ہو جاو تو سواری سے مت اترنا وغیرہ۔

    مذکورہ مثال میں بتایا گیا کہ اس قسم کی ترکیب میں جو معنی پہلے لفظ کو ہوگا وہی اس کے دوسرے استعمال کا ہوگا۔ اور یہی زبان کا قاعدہ ہے۔ کوئی اعتراض بنتا ہے تو یہ کہ محصنت کا مفہوم پاک دامن رکھی گئی ہوں، نہیں بلکہ شادی شدۃ ہے۔ اس صورت میں فاذا احصن کا مفہوم بھی شادی شدہ ہوگا۔ لیکن چونکہ یہ درست نہیں ہو سکتا، اس لیے دوسرا مفہوم ہی درست ہے جو لیا گیا۔

    • Abdur Rahman

      Member January 9, 2024 at 1:36 am

      بہت شکریہ وضاحت کرنے کا لیکن یہ اشکال پھر بھی باقی ہے کہ فإذا أحصن میں نکاح کا بھی مفہوم ہو سکتا ہے اور پاکدامنی کا بھی اور اس سے پہلے دونوں ہی مفہوم کے الفاظ استعمال ہو چکے ہیں۔ تو یہ نکاح کے مفہوم میں کیوں نہیں آ سکتا۔ اور پھر زبان کے جس قاعدے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ کہاں بیان ہوا ہے۔

    • Dr. Irfan Shahzad

      Scholar January 9, 2024 at 10:15 pm

      زبان یہ قاعدہ معروف اسلوب ہے۔ یعنی یہی مفہوم ہوتا ہے جب ترکیب ایسی ہو۔ کسی زبان کے تمام اسالیب قواعد کی کسی کتاب میں بیان نہین ہوتے، اہل زبان اسے سمجھتے ہیں اور کسی موقع پر اس کا بیان کرتے ہیں۔ آپ اسی پر مبنی کوئی جملہ بنا کر دیکھ سکتے ہیں۔

      منکوحہ کا مفہوم محصنات نہں لیا نہیں جا سکتا۔ کیونکہ نکاح غیر منکوحہ ہی سے ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد ف کے ساتھ اذا آیا ہے یعنی تو جب وہ محصنہ ہوں تو لازما یہاں وہی مفہوم ہوگا جو پہلے محصنات کا ہے۔

    • Abdur Rahman

      Member January 9, 2024 at 11:13 pm

      شکریہ جزاک اللہ خیرا وأحسن الجزاء

You must be logged in to reply.
Login | Register