-
Quran 4:25 – Correct Translation Of Fa-Izaa Ehsan ("فإذا أحصن" )
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
نوٹ: اس سے پہلے بھی میں نے یہ اعتراض پوسٹ کیا تھا لیکن کوئی جواب نہیں ملا اس لیے دوبارہ کر رہا ہوں۔ برائے مہربانی میرا اشکال دور فرمائیں۔
رجم کی سزا کی بحث میں برھان صفحہ 103-104 پر غامدی صاحب سورۃ نساء کی آیت 25 میں ’ فاذا احصن‘ کا مفہوم متعین کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“ہمارے نزدیک ، یہ الفاظ یہاں ’ جب وہ قید نکاح میں آ جائیں‘ کے معنی میں نہیں ،بلکہ ’جب وہ پاک دامن رکھی جائیں‘ کے معنی میں استعمال ہوئے ہیں ، اور اپنا یہ موقف ہم زبان و بیان کے دلائل سے ثابت کر سکتے ہیں ۔ یہ دلائل ہم یہاں پیش کیے دیتے ہیں ۔ آیۂ زیر بحث کے جس حصے میں ’ فاذا احصن‘ کے یہ الفاظ مذکور ہیں ، وہ یہ ہے :
فَانْکِحُوْھُنَّ بِاِذْنِ اَھْلِھِنَّ وَاٰتُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ مُحْصَنٰتٍ غَیْرَ مُسٰفِحٰتٍ وَّلَا مُتَّخِذٰتِ اَخْدَانٍ. فَاِذَآ اُحْصِنَّ فَاِنْ اَتَیْنَ بِفَاحِشَۃٍ فَعَلَیْھِنَّ نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ.(النساء۴: ۲۵)
’’سو اِن لونڈیوں سے نکاح کر لو، اِن کے مالکوں کی اجازت سے اور دستور کے مطابق اِن کے مہر ادا کرو، اِس حال میں کہ وہ پاک دامن رکھی گئی ہوں، نہ علانیہ بدکاری کرنے والیاں اور نہ چوری چھپے آشنائی کرنے والیاں۔ پھر جب وہ پاک دامن رکھی جائیں اور اِس کے بعد اگر بدچلنی کی مرتکب ہوں توآزاد عورتوں کی جو سزا ہے ، اُس کی نصف سزا اُن پر ہے ۔ ‘‘
اِس آیت میں دیکھیے ، ’ فاذا احصن‘ میں ’ اذا‘ پر جو حرف ’ف‘ داخل ہے ، اُس کا تقاضا ہے کہ فعل ’احصن‘ سے یہاں وہی مفہوم مراد لیا جائے ، جو ’ مُحْصَنٰتٍ غَیْرَمُسٰفِحٰتٍ‘ میں لفظ ’محصنات‘ کا ہے ۔ عربی میں مثال کے طور پر اگر کہیں : ’اذھب الیہ راکبًا فاذا رکبت ‘ تو اِس میں ’ راکبًا‘ ا ور ’رکبت‘ کو دو مختلف معنوں میں کسی طرح نہیں لیا جا سکتا ۔ اِس جملے میں جو معنی ’راکبًا‘ سے سمجھے جائیں گے ، لازم ہو گا کہ وہی معنی ’ رکبت‘ کے بھی سمجھے جائیں۔ لہٰذا ’ فَاِذَآ اُحْصِنَّ‘ میں فعل ’احصن‘ کے معنی کا انحصار درحقیقت ’ مُحْصَنٰتٍ غَیْرَ مُسٰفِحٰتٍ‘ میں لفظ ’محصنات‘ کے مفہوم کے تعین پر ہے۔” (برھان 103-104)
غامدی صاحب کے نزدیک فعل ’احصن‘ سے یہاں وہی مفہوم مراد لیا جائے گا جو ’محصنات‘ کا ہے پھر اس کو یوں سمجھاتے ہیں کہ “عربی میں مثال کے طور پر اگر کہیں : ’اذھب الیہ راکبًا فاذا رکبت ‘ تو اِس میں ’راکبًا‘ ا ور ’رکبت‘ کو دو مختلف معنوں میں کسی طرح نہیں لیا جا سکتا” لیکن میں سمجھتا ہوں یہ مثال صحیح نہیں ہے کیونکہ ’رکبت‘ ایسا لفظ ہے جس میں ’اذھب’ کے معنی کا احتمال نہیں ہوسکتا اس لیے لازماً ’راکبًا‘ ہی کے معنی میں ہوگا۔ اس کے برعکس ’احصن‘ ایسا لفظ ہے جس میں نکاح اور پاکدامنی دونوں کا معنی شامل ہے لہذا اس میں امر فَانْکِحُوْھُنَّ اور حال مُحْصَنٰتٍ دونوں کے معنی کا احتمال ہے۔ اب ان دونوں میں سے ’احصن‘ کس مفہوم میں استعمال ہوا ہے؟ اس کے تعین کیلیے غامدی صاحب ہی کی مذکورہ مثال کو اس طرح دیکھیے ’اذھب الیہ راکبًا فاذا۔۔۔؟ یہاں پر ‘فاذا ذھبت’ مناسب ہے یا ‘فاذا رکبت’ ؟ یعنی اگر اردو میں یہ کہیں کہ ‘ تم اس کے پاس سوار ہو کر جاؤ پھر جب تم پہنچ جاؤ’ یہ زیادہ موزوں ہے یا یہ کہ ‘ تم اس کے پاس سوار ہو کر جاؤ پھر جب تم سوار ہو جاؤ؟ بآسانی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس طرح کی مثالوں میں امر ہی کے مفہوم کا کوئی لفظ لایا جاتا ہے نہ کہ حال کے مفہوم کا۔ لہذا ’ فَاِذَآ اُحْصِنَّ‘ کا وہی معنی ہے جو فَانْکِحُوْھُنَّ کا ہے نہ کہ وہ معنی جو مُحْصَنٰتٍ کا ہے۔
آخر میں اہل علم حضرات سے گزارش ہے کہ مجھے سمجھائیں کہ میں کس جگہ غلطی کر رہا ہوں، میرا اعتراض صحیح ہے یا نہیں؟
Sponsor Ask Ghamidi