Ask Ghamidi

A Community Driven Discussion Portal
To Ask, Answer, Share And Learn

Forums Forums Sources of Islam Quran 6:59 – Meaning Of Kitab-e-Mubeen (کتاب مبین)

Tagged: ,

  • Quran 6:59 – Meaning Of Kitab-e-Mubeen (کتاب مبین)

    Posted by Abdul Basit on January 29, 2024 at 9:41 am

    غامدی صاحب کا لیکچر سنا اس میں انہوں نے “کتاب مبین” سے کیا مراد لیا ہے؟ پتہ نہیں چل رہا

    تفسیر اور وضاحت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ “علم خدا” مراد لیتے مگر ترجمہ سے پتہ چلتا وہ اسے “کھلی کتاب” کہتے

    تو اس کھلی کتاب سے مراد قرآن ہے؟

    یا لوح محفوظ؟

    اگر قرآن ہے تو اس میں ہر رطب و یابس کیسے موجود ہے؟

    اگر مراد لوحِ محفوظ ہے تو “مبین” کہنے کی وجہ؟

    اور اگر “علم خدا “ مراد ہے تو اسے “کتاب” کیسے کہا جا سکتا

    Dr. Irfan Shahzad replied 2 months, 2 weeks ago 3 Members · 5 Replies
  • 5 Replies
  • Quran 6:59 – Meaning Of Kitab-e-Mubeen (کتاب مبین)

  • Umer

    Moderator February 7, 2024 at 11:49 pm

    Dr. Irfan Shahzad Sahab ( @Irfan76 ) might be able to add some insight.

  • Dr. Irfan Shahzad

    Scholar February 8, 2024 at 3:59 am

    اس سے مراد قرآن نہیں، علم الہی ہے۔

    عربی میں کتاب صرف بُک کو نہیں کہتے۔ کسی مجموعہ معلومات ک بھی کتاب کہا جاتا ہے چاہے وہ لکھی ہو یا نہ ہو۔ چناں چہ قرآن جو ابھی لکھا ہی نہیں کیا گیا اسے اول دن سے کتاب ہی کہا گیا۔

    اسی طرح قانون کو بھی کتاب کہتے ہیں۔

    خدا کی معلومات اس کے احاطہ علم میں موجود ہیں اس لیے اسے کتاب کہا گیا۔ اسی بات کو لوح محفوظ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔

    مبین کہنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ خدا کے لیے بالکل واضح ہے کہ جو کچھ جیسا وہاں موجود ہے ویسا ہی ہے اور پیش آئے گا۔ مبین کا مطلب واضح ہے، ، اسی کو کھلا کہا گیا ہے۔ اس کا مطلب اوپن نہیں ہے۔ کلیئر ہے۔

  • Abdul Basit

    Member February 11, 2024 at 12:05 pm

    سر بہت شکریہ

    ذرا چند ایک شواہد اس دور کی عربی سے پیش کیجیے گا جہاں مجموعہ معلومات کو “کتاب” کہا گیا ہو اور وہ لکھی بھی نہ ہوئی ہوں

    سلامت رہیں

  • Dr. Irfan Shahzad

    Scholar February 11, 2024 at 10:50 pm

    اس کی مثال خود قرآن ہے۔ کتابی شکل میں یہ بعد میں آیا، مگر وحی اسے کتاب کہتی رہی۔

  • Dr. Irfan Shahzad

    Scholar February 11, 2024 at 11:46 pm

    محمد اسد، مفسر دی میسج آف قرآن، لکھتے ہیں:

    کتاب کا لفظ جب قرآن کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، تو اس کا معنی “کتاب” لیا جاتا ہے، حالانکہ قرآن جب نازل ہو رہا تھا (اور ہمیں یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ نزولِ قرآن کا عمل 23 سال میں مکمل ہوا۔) تو وہ لوگ جو اس کی تلاوت سنتے تھے ، اس لفظ کو “کتاب” کے معنی میں نہیں لیتے تھے، اس لیے کہ کتابی شکل میں تو یہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے چند عشروں بعد آیا، بلکہ اسم “کتاب” سے مشتق فعل کَتَبَ (اس نے لکھا) یا اس کے مجازی معنی لیے جائیں تو یہ “خدائی فرمان” یا “وحی” کے مفہوم میں سمجھا جاتا تھا۔ اسی مفہوم میں یہ لفظ قرآن مجید میں اگلی الہامی کتب کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔

    (دیکھیے مقدمہ دی میسج اف قرآن)

You must be logged in to reply.
Login | Register