مجاز زبان کا ایک اسلوب ہے۔ کلام میں کیا چیز مجاز ہے یہ الل ٹپ نہیں ہوتا۔ اہل زبان الفاظ کا جس طرح استعمال کرتے ہیں وہ جملے اور اپنے سیاق و سباق سے واضح کر دیتا ہے کہ بات مجاز میں کی گئی ہے یا حقیقت مراد ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ اپنی مرضی سے کسی لفظ کو حقیقت یا مجاز بنا دیں۔
مثلا اس شعر میں شیر کا لفظ مجازی ہے جس کے بارے میں کوئی ابہام نہیں ہوتا۔
کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے۔
جب کہ شیر جنگل کا بادشاہ ہے میں حقیقی شیر مراد ہے۔
یہی معاملہ قرآن میں ہے۔ وہ ایک اعلی ادبی زبان میں ہے۔ وہاں حقیقت کے ساتھ مجاز بھی استعمال ہوا ہے۔ مگر اپنے اسلوب سے واضح کر دیتا ہے کہ وہاں معنی حقیقی لینا ہیں یا مجازی۔