Ask Ghamidi

A Community Driven Discussion Portal
To Ask, Answer, Share And Learn

Forums Forums Sources of Islam Difference Between Rehman And Raheem

Tagged: ,

  • Difference Between Rehman And Raheem

    Dr. Irfan Shahzad updated 2 months ago 2 Members · 2 Replies
  • Dr. Irfan Shahzad

    Scholar March 4, 2024 at 4:22 am

    5 اصل میں ’رَحْمٰن‘اور ’رَحِیْم‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔یہ دونوں اگرچہ رحمت ہی سے صفت کے صیغے ہیں، لیکن معنی کے لحاظ سے دیکھیے تو اِن میں واضح فرق ہے۔استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اپنی تفسیر ”تدبر قرآن“میں اِس فرق کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ”اسم ’رحمٰن‘، ’غضبان‘ اور ’سکران‘کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے، اوراسم ’رحیم‘، ’علیم‘ اور ’کریم‘ کے وزن پر صفت کا۔بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ’رحیم‘ کے مقابل میں ’رحمٰن‘ میں زیادہ مبالغہ ہے، اِس وجہ سے ’رحمٰن‘ کے بعد ’رحیم‘ کا لفظ اُن کے خیال میں ایک زائد لفظ ہے جس کی چنداں ضرورت تو نہیں تھی،لیکن یہ تاکید مزید کے طور پر آ گیا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ عربی زبان کے استعمالات کے لحاظ سے ’فعلان‘ کا وزن جوش و خروش اور ہیجان پر دلیل ہوتا ہے اور ’فعیل‘ کا وزن دوام و استمرار اور پایداری و استواری پر۔ اِس وجہ سے اِن دونوں صفتوں میں سے کوئی صفت بھی براے بیت نہیں ہے،بلکہ اِن میں سے ایک خدا کی رحمت کے جوش و خروش کو ظاہر کر رہی ہے، دوسری اُس کے دوام و تسلسل کو۔ غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ خدا کی رحمت اِس خلق پر ہے بھی اِسی نوعیت سے۔ اُس میں جوش ہی جوش نہیں ہے، بلکہ پایداری اور استقلال بھی ہے۔اُس نے یہ نہیں کیا ہے کہ اپنی رحمانیت کے جوش میں دنیا پیداتو کر ڈالی ہو،لیکن پیدا کر کے پھر اُس کی خبر گیری اور نگہداشت سے غافل ہو گیا ہو،بلکہ اُس کو پیدا کرنے کے بعد وہ اپنی پوری شان رحیمیت کے ساتھ اُس کی پرورش اور نگہداشت بھی فرما رہا ہے۔بندہ جب بھی اُسے پکارتا ہے،وہ اُس کی پکار سنتا ہے اور اُس کی دعاؤں اور التجاؤں کو شرف قبولیت بخشتا ہے،پھر اُس کی رحمتیں اِسی چند روزہ زندگی ہی تک محدود نہیں ہیں،بلکہ جو لوگ اُس کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے رہیں گے، اُن پر اُس کی رحمت ایک ایسی ابدی اور لازوال زندگی میں بھی ہو گی جو کبھی ختم ہونے والی نہیں ہے۔غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ یہ ساری حقیقت اُس وقت تک ظاہر نہیں ہو سکتی،جب تک یہ دونوں لفظ مل کر اُس کو ظاہر نہ کریں۔“ (۱/ ۸۴) ’رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘ کے بعد یہ دونوں صفات جس حقیقت کو ظاہر کرتی ہیں،وہ یہ ہے کہ جس پروردگار نے عالم میں ربوبیت کا یہ اہتمام فرمایا ہے،اُس کے بارے میں یہ بات اگر نہیں کہی جا سکتی اور یقینا نہیں کہی جا سکتی کہ اُس کی کوئی ذاتی غرض اِس اہتمام سے وابستہ ہے یا وہ اپنی سلطنت کے قیام و بقا کے لیے اِس کا محتاج ہے یا کسی کا کوئی حق اُس پر قائم ہوتا ہے جسے ادا کرنے کے لیے یہ اہتمام اُسے کرنا پڑا ہے تو اِس کی وجہ پھر یہی ہو سکتی ہے کہ وہ رحمن و رحیم ہے۔اُس کی رحمت کا جوش ہے کہ اُس نے ہمیں پیدا کیا ہے اور اِس رحمت کا دوام و استمرار ہے کہ اُس کا فیضان برابر ہمیں پہنچ رہا ہے۔”

  • Dr. Irfan Shahzad

    Scholar March 4, 2024 at 4:22 am

You must be logged in to reply.
Login | Register