کسی بھی کلام کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ الفاظ کو محاورے کے مطابق سمجھائے۔ ایک لفظ کے کئی معانی ہوتے ہیں۔ لیکن ہر جملے میں لفظ اپنے کسی ایک متعین معنی میں استعمال ہوتا ہے جو جملے کی تالیف اور محاورہ طے کرتا ہے۔ لغت سے متعدد معانی دیکھ کر ہر جگہ اپنی مرضی کا معنی ڈال کر نئے مطلب نکالنا زبان کے طریقہ استعمال سے عدم واقفیت کی علامت ہے۔ یہ کام ہم کسی بھی کلام کے ساتھ کریں تو مضحکہ خیز نتائج نکلیں گے۔
سبب عربی میں رسی کو کہتے ہیں۔ اسی سے اس میں تعلقات، راستے اور ساز و سامان وغیرہ کے معانی پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں۔
قرآن مجید میں یہ لفظ ان سب معانی کے لیے آیا ہے۔ درج ذیل آیت دیکھیے 2: 166
إِذْ تَبَرَّأَ الَّذِينَ اتُّبِعُوا مِنَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا وَرَأَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْأَسْبَابُ
اُس وقت جب وہ لوگ جن کی پیروی کی گئی، اپنے پیرووں سے بے تعلقی ظاہر کر دیں گے اور عذاب سے دوچار ہوں گے اور اُن کے تعلقات یک قلم ٹوٹ جائیں گے۔
اب یہاں آسمان کے راستے کا معنی ڈال کر دیکھیے۔ کوئی معنی بنتا ہے؟
دوسرا صول یہ ہے کہ کسی بھی کلام کے اپنے تصورات ہوتے ہیں کلام کو اسی میں دیکھنا چاہیے۔
آسمان کے راستوں سے مراد وہ راستے ہیں جہاں سے فرشتے آتے جاتے ہیں یا بعض اوقات جن کسی حد تک کوشش کرتے ہیں۔
ذو القرنین کے معاملے میں یہ سازو سامان کے معنی میں جو اس نے اپنی مہم کے لیے تیار کیا تھا اور فرعون کے معاملے میں یہ آسمان کے راستوں یا آسمان کے اطراف تک پہنچنے کی بھڑک ہے جو اس نے ماری کہ میں اتنی بلندی پر پہنچ خدا کو دیکھ آؤں۔ یہ محض ایک طنز یا شغلیہ بات تھی جو اس نے کہی تاکہ لوگوں پر موسی علیہ السلام کی تقریر کا جو اثر ہوا تھا اسے زائل کر سکے۔