Ask Ghamidi

A Community Driven Discussion Portal
To Ask, Answer, Share And Learn

Forums Forums Islam and Science Science Related

  • Science Related

    Posted by Noshad Farooq on March 22, 2024 at 1:17 am

    Salam sir.

    Kya Allah ne quran me soora momineen me asman k rasto ki kasam khai hai .. or soora najam me jo sitaro ki doobny ki kasam khai hai is k bary me kuch data ghamdi sab ki kya Ray hai kindly.. ans

    Mazeed isi se relate.. sababa se kya murad hai q k soora saad me Allah ne farmaya k ager tm smjhty ho k zameen o asman ki badshahi in k pas hai to ye sababa per char k dikhy

    Is k ilawa firon ne b sababa per jany ka koi bandobast krny ki koshs ki .

    Or soora kehf me ye lafz sababa kis purpos k lye istimal hoa ha

    Dr. Irfan Shahzad replied 1 month, 1 week ago 2 Members · 1 Reply
  • 1 Reply
  • Science Related

  • Dr. Irfan Shahzad

    Scholar March 23, 2024 at 1:04 am

    کسی بھی کلام کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ الفاظ کو محاورے کے مطابق سمجھائے۔ ایک لفظ کے کئی معانی ہوتے ہیں۔ لیکن ہر جملے میں لفظ اپنے کسی ایک متعین معنی میں استعمال ہوتا ہے جو جملے کی تالیف اور محاورہ طے کرتا ہے۔ لغت سے متعدد معانی دیکھ کر ہر جگہ اپنی مرضی کا معنی ڈال کر نئے مطلب نکالنا زبان کے طریقہ استعمال سے عدم واقفیت کی علامت ہے۔ یہ کام ہم کسی بھی کلام کے ساتھ کریں تو مضحکہ خیز نتائج نکلیں گے۔

    سبب عربی میں رسی کو کہتے ہیں۔ اسی سے اس میں تعلقات، راستے اور ساز و سامان وغیرہ کے معانی پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں۔

    قرآن مجید میں یہ لفظ ان سب معانی کے لیے آیا ہے۔ درج ذیل آیت دیکھیے 2: 166

    إِذْ تَبَرَّأَ الَّذِينَ اتُّبِعُوا مِنَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا وَرَأَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْأَسْبَابُ

    اُس وقت جب وہ لوگ جن کی پیروی کی گئی، اپنے پیرووں سے بے تعلقی ظاہر کر دیں گے اور عذاب سے دوچار ہوں گے اور اُن کے تعلقات یک قلم ٹوٹ جائیں گے۔

    اب یہاں آسمان کے راستے کا معنی ڈال کر دیکھیے۔ کوئی معنی بنتا ہے؟

    دوسرا صول یہ ہے کہ کسی بھی کلام کے اپنے تصورات ہوتے ہیں کلام کو اسی میں دیکھنا چاہیے۔

    آسمان کے راستوں سے مراد وہ راستے ہیں جہاں سے فرشتے آتے جاتے ہیں یا بعض اوقات جن کسی حد تک کوشش کرتے ہیں۔

    ذو القرنین کے معاملے میں یہ سازو سامان کے معنی میں جو اس نے اپنی مہم کے لیے تیار کیا تھا اور فرعون کے معاملے میں یہ آسمان کے راستوں یا آسمان کے اطراف تک پہنچنے کی بھڑک ہے جو اس نے ماری کہ میں اتنی بلندی پر پہنچ خدا کو دیکھ آؤں۔ یہ محض ایک طنز یا شغلیہ بات تھی جو اس نے کہی تاکہ لوگوں پر موسی علیہ السلام کی تقریر کا جو اثر ہوا تھا اسے زائل کر سکے۔

You must be logged in to reply.
Login | Register