Ask Ghamidi

A Community Driven Discussion Portal
To Ask, Answer, Share And Learn

Forums Forums Islam and Family Rights Of A Husband In Case Of Divorce Or Khula?

  • Rights Of A Husband In Case Of Divorce Or Khula?

    Posted by Dr Firasat Khan on April 29, 2024 at 1:49 pm

    کیا قرآن میں مردوں خاص طور پر شادی شدہ مردوں کے کوئی حقوق بیان ہوئے ہیں؟ اگر عورت طلاق یا خلع کر لے تو اس کو مرد کو کیا واپس کرنا چاہئے۔ قرآن اس کے بارے کیوں خاموش ہے؟ نوازش

    Dr. Irfan Shahzad replied 1 week ago 2 Members · 15 Replies
  • 15 Replies
  • Rights Of A Husband In Case Of Divorce Or Khula?

    Dr. Irfan Shahzad updated 1 week ago 2 Members · 15 Replies
  • Dr. Irfan Shahzad

    Scholar April 29, 2024 at 11:48 pm

    سوال یوں کیجیے کہ قرآن یا دین اس بارے میں کیا کہتا ہے۔ خاموش ہے یا نہیں یہ آپ کو اس کے بعد ہی معلوم ہو سکتا ہے۔

    قرآن مجید میں بتایا گیا ہے کہ حق مہر اس صورت میں واپس نہیں لیا جایے گا تاہم اس کے علاؤہ مرد نے عورت کو کچھ دے رکھا ہو اور عورت کو محسوس ہو کہ یہ واپس دے کر وہ مرد سے خلع لے سکتی ہے تو وہ ایسا کر سکتی ہے۔نکاح دو آزاد لوگوں کا معاہدہ ہے اور دونوں کے پاس اختیار ہے کہ اسے ختم کرنا چاہیں تو قانونی طریقہ اختیار کریں۔

  • Dr. Irfan Shahzad

    Scholar April 29, 2024 at 11:49 pm

    دیکھیے آیت ۲: ۲۲۹

  • Dr Firasat Khan

    Member April 30, 2024 at 9:59 am

    اس میں مردوں کے حقوق کیسے ثابت ہوئے۔ یہ بھی عورت کو سہولت ہے۔ کیا کوئی سورت مردوں کے حقوق پر نازل ہوئی۔ مگر عورتوں کے حقوق پر پورٹ سورت موجود ہے۔ عورت بنا کچھ واپس کئے بھی خلع کر لیتی ہے۔ اور سب کچھ رکھ لیتی ہے۔ جب یہ کہا گیا کہ انہیں گھروں سے نہ نکالو، انہیں دے دلا کر رخصت کرو تو اس کا الٹ کیوں نہیں کہا گیا۔ مرد عورت کو دنیا کی ہر نعمت رے کے اور عورت چاہے تو بنا کچھ واپس کئے خلع کر لے، کوئی قانون نہیں روکتا۔ مرد کے ساتھ عورت ناروا رویہ رکھے تو مرد کے کیا حقوق ہیں۔ کیا قرآن اس بارے میں کچھ کہتا ہے۔ میرے علم کے مطابق تو نہیں کہتا۔ آپ زیادہ علم رکھتے ہیں رہنمائی فرمائے مگر قرآن کے ریفرنس سے۔ نوازش

  • Dr. Irfan Shahzad

    Scholar May 1, 2024 at 12:04 am

    مرد کو طلاق کا حق دیا گیا ہے۔ یہی بات عورت کہ سکتی ہے کہ وہ اپنا سب کچھ قربان کر کے مرد کے پاس آئی اور اس جب جب چاہا اسے طلاق دے دی اسے روکنے والا کوئی نہیں۔

    خلع کے معاملے میں لیکن ایسا نہیں ہوتا کہ عورت نے خلع مانگی اور اسے ٹھک سے دے دی گئی۔ مرد طلاق نہ دینا چاہے تو معاملہ عدالت میں جاتا ہے۔ جج کر سمجھے کہ عورت کا مطالبہ درست نہیں تو خلع نہیں ہوتا۔ لیکن طلاق کے معاملے میں ایسا نہیں۔ مرد کو اس کا یہ حق استعمال کرنے سے کوئی نہیں روکتا۔ سوائے اخلاقی تقاضے کہ مرد ظلم نہ کرے ب

    مردوں کے جو حقوق بتائے گئے ہیں ان میں ایک یہ کہ وہ گھر کے سربراہ ہیں۔ بیویوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ گھر کے دائرے میں ان کی اطاعت کریں۔

    مرد کو یہ بھی حق دیا گیا ہے کہ بیوی اگر بغاوت کر اتر آئے اور طلاق بھی نہ لے رہی ہو تو وہ اسے سمجھائے ، علیحدگی اختیار کر لے اور اگر معاملہ انتہا کو پہنچ جائے جو مرد عورت کو جسمانی سزا بھی دے سکتا ہے۔ مگر یہ صرف ادب سکھانے کے لیے نہ کہ تشدد کے لیے۔

  • Dr. Irfan Shahzad

    Scholar May 1, 2024 at 12:07 am

    4: 34

    الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ ۚ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّهُ ۚ وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ ۖ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا

    رد عورتوں کے سربراہ بنائے گئے ہیں، اِس لیے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت بخشی ہے اور اِس لیے کہ اُنھوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں۔ پھر جو نیک عورتیں ہیں، وہ (اپنے شوہروں کی) فرماں بردار ہوتی ہیں، رازوں کی حفاظت کرتی ہیں، اِس بنا پر کہ اللہ نے بھی رازوں کی حفاظت کی ہے۔ اور (اِسی اصول پر تم کو حق دیا گیا ہے کہ) جن عورتوں سے تمھیں سرکشی کا اندیشہ ہو، اُنھیں نصیحت کرو اور اُن کے بستروں پر اُنھیں تنہا چھوڑ دو اور (اِس پر بھی نہ مانیں تو) اُنھیں سزا دو۔ پھر اگر وہ تمھاری بات ماننے لگیں تو اُن پر الزام کی راہ نہ ڈھونڈو۔ بے شک، اللہ بہت بلند ہے، وہ بہت بڑا ہے۔

  • Dr Firasat Khan

    Member May 2, 2024 at 1:06 am

    سلام

    آپ نے فرمایا کہ یہ حق صرف مرد کو حاصل ہے کہ وہ طلاق دے، یہ حکم تو بذات خود ایک جانبدارانہ حکم ہے۔ اس میں مساوات اور انصاف نام کی کوئی خاص وجہ نظر نہیں آتی۔مرد کو حاکم بنایا گیا ہے جس میں صرف فرائض آتے ہیں، حقوق نہیں۔ جس طرح مرد کو عورت کی رکھوالی، نان نفقہ وغیرہ وغیرہ کا پابند کیا گیا ہے ویسے ہی عورت کو کیوں کسی ادب آداب گھریلو ذمہ داریوں کا پابند نہیں کیا گیا۔ کیا یہ بات ماننا اتنا مشکل ہے کہ قرآن اس معاملے میں کوئی صریح احکامات نہیں دیتا۔ عورت کی کوئی معاشی، معاشرتی اور گھریلو ذمہ داری بیان نہیں کرتا۔ عورت جو کسی بھی معاشرے کا بنیادی ستون ہے اس کے حقوق سے قرآن بھرا ہے مگر مرد جو معاشرے میں اسی جیسی حیثیت رکھتا ہے اس کے حقوق کے بارے میں آپ بڑی مشکل سے ایک آیت ہی پیش کر سکے ۔ اور وہ بھی وہ آیت جس پر مزید گفتگو کی جا سکتی ہے کہ آیا یہ حق ہے بھی یا نہیں۔

    شکریہ

  • Dr. Irfan Shahzad

    Scholar May 2, 2024 at 1:18 am

    ایک فریق کے فرائض دوسرے کے حقوق ہوتے ہیں۔

    مساوات بذات خود انصاف نہیں ہوتی۔ ہر فریق کو اس کی حثیت کے مطابق حقوق و فرائض دینا ہی قرین انصاف ہوتا ہے۔ اسی لیے ایک گھر میں مثلا باپ اور بیٹے کے حقوق و فرائض میں مساوات نہیں ہوتی ملک میں سربراہ اور عوام کے حقوق و فرائض میں مساوات نہیں ہوتی۔

    گھر ایک ادارہ ہے تو مرد کو اس کا سربراہ بنایا گیا ہے اس لحاظ سے اس کی حقوق بھی ہیں اور فرائض بھی۔ نان نفقے کی زمہ داری اس کی ہے تو اس کے بدلے اطاعت کا حق بھی اس کا ہے۔

    یہ اصول طے ہو جانے کے بعد مرد و عورت اپنے لیے کیا سماجی اور معاشی دائرے متعین کرتے ہیں یہ معاملہ افراد کے آپس میں طے کرنے اور سماجی حالات سے طے ہوتے ہیں۔

    قرآن مجید کا انداز یہ ہے وہ ان باتوں میں رہنمائی نہیں دیتا جو لوگ خود طے کر سکتے ہیں۔ جہان افراط و تفریط کا مسئلہ ہو وہاں رہنمائی کر دیتا ہے ۔ جہاں عقل سے حتمی فیصلہ نہ ہو پائے وہاں صراحت سے بیان کر دیتا ہے۔

  • Dr Firasat Khan

    Member May 2, 2024 at 1:45 pm

    سلام

    اگر قرآن ان باتوں پر رہنمائی نہیں دیتا جو لوگ خود طے کر سکتے ہیں تو عورتوں کے حقوق بھی نہیں بیان ہونے چاہئے تھے وہ بھی معاشرہ خود طے کر لیتا جیسا کہ مغرب نے کیا ہے۔ وہاں عورتوں اور مردوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔ ان کو تو کسی دینی تعلیمات کی ضرورت نہیں پڑی۔

    شکریہ

  • Dr. Irfan Shahzad

    Scholar May 3, 2024 at 9:35 am

    انسانوں نے مرد و عورت کے حقوق طے کرنے ہی میں ٹھوکر کھائی ہے۔ کچھ سماجوں میں عورت کو بالکل غلام سمجھ لیا گیا اور مغرب میں دونوں کو ہر طرح سے برابری کا درجہ دے دیا گیا۔

    یہ دونوں ہی اعتدال کے خلاف ہے۔

    گھر ایک ادارہ ہے جس ایک ہی سربراہ ہو سکتا ہے۔ مرد پر چوں کہ کمانے اور حفاظت کی ذمہ داری ہے اس لیے سربراہی کا منصب اس کے لیے ہی مناسب ہے۔ عورت اس کے مقابل اطاعت کے منصب پر ہے۔ وہ مرد سے اپنا خرچ وصول کرے گی۔ اس لیے اس کی اطاعت بھی کرے گی۔ اطاعت کا مطلب غلامانہ اطاعت نہیں۔

    اسی مناسبت سے مرد کو یہ ادارہ ختم کرنے یعنی طلاق کا اختیار ہے کیون کہ وہی اپنے مال سے اس قائم کرتا ہے۔

    عورت جو کماتی ہے وہ ذمہ داری کی وجہ سے نہیں بلکہ کنٹری بیوٹ کرنے کے لیے کماتی ہے اصل ذمہ داری مرد کی ہے۔

    یورپ میں مرد کو ایثار پر مجبور کیا گیا ہے کہ ذمہ داری ساری وہ اٹھائے لیکن حقوق میں برابری ہو۔ طلاق اسے عورت دے سکتی ہے اور اگر وہ طلاق حاصل کرنا چاہے تو اسے آدھی جائیداد عورت کو دینی پڑتی ہے۔

    انھیں وجوہات سے اسلام نے دونوں کے گھریلو حقوق و فرائض طے کیے ہیں۔

  • Dr Firasat Khan

    Member May 5, 2024 at 12:45 am

    آپ کے جوابات اور تشریحات کا بہت بہت شکریہ۔ مگر اس پر مزید سوچ و بچار کی ضرورت ہے۔ آپ کے اپنے جوابات میں چند تضادات موجود ہیں۔ مگر یہ علمی گفتگو ہے اور ہم دونوں کے پاس ایک دوسرے سے اختلاف کا حق حاصل ہے۔ میرے نزدیک آج بھی بات یہی ثابت ہے کہ قرآن اس معاملے میں کوئی حتمی رائے اور حکم دینے سے قاصر ہے۔ اور اس کے برعکس عورتوں کے حقوق پر بڑی فصاحت سے گفتگو کی گئی ہے ۔اسی وجہ سے شاید ہمارے معاشروں میں ایک منظم نظام تکمیل نہیں پا سکا ہے بمقابل مغربی دنیا کے۔ کیونکہ نہ ہم مذہبی طور پر کوئی نظام قائم کر سکتے ہیں نہ معاشرتی طور پر۔ مذہب مردوں کے حقوق بتانے سے یکسر قاصر ہے اور معاشرتی طور مرد کے صرف فرائض ہیں۔ عورت کسی قسم کی پابندی سے بری الزمہ ہے۔ کیا مذہب عورت کو اس بات کا پابند کرتا ہے کہ وہ مرد کی خدمت کرے۔ اطاعت اور خدمت میں فرق واضح ہے۔ مگر مرد پر ذمہ داری ہے کہ نان نفقہ اور حفاظت کرے۔ بدلے میں اسے کیا ملے گا۔ مذہب خاموش ہے۔ اور یہی وجہ آج کل بڑھتے طلاق کے رجحان کی۔ عورت اپنے تمام حقوق چاہتی ہے جو مذہب کی روح سے ثابت ہیں مگر کیونکہ فرائض نہیں ثابت سو معاشرہ افراتفری کا شکار ہے۔ عورت سوال پوچھتی ہے کہ قرآن سے ثابت کرو کہ یہ کہاں حکم آیا ہے کہ مجھے اپنے شوہر اور اس کے ماں باپ کی خدمت کا پابند کیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے قرآن تو یہ حکم تک نہیں دیتا کہ اس حفاظت اور نان نفقہ کے بدلے میں مرد کا خیال رکھنا عورت پر فرض ہے۔ اس کی اولاد کی پرورش کرنا عورت پر فرض ہے۔ اس کے گھر اور مال کی حفاظت فرض ہے۔ جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں آپ میرے سوال کے جواب میں بمشکل دو آیتیں پیش کر سکے جو بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن اس سلسلے میں کوئی واضح احکامات دینے سے قاصر ہے۔ اگر آج آپ سے سوال عورتوں کے حقوق کے بارے میں ہو تو کیا آپ صرف دو آیتیں ہی پیش کریں گے۔ میری ذاتی رائے میں بجائے اس بات کا دفاع کیا جائے کہ قرآن مردوں کے حقوق بتانے سے قاصر ہے ہم غیر ضروری اور غیر متعلقہ توجیہات تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جیسا کہ عرض کیا ہے میرا مقصد ہرگز ہرگز آپ کے علم اور دانش کو چیلنج کرنا نہیں ہے۔ اللہ آپ کی عزت اور تکریم میں اضافہ فرمائے۔ رہنمائی کا بہت بہت شکریہ۔

  • Dr. Irfan Shahzad

    Scholar May 5, 2024 at 8:08 pm

    اختلاف میں کوئی مسئلہ نہیں۔

    آپ مذہب سے وہ مطالبات کر رہے ہیں جو مذہب کا موضوع نہیں۔ معاشرتی مسائل کا حل انسانوں نے خود نکالنا ہے۔ اس کے لیے انسان کو عقل اور اخلاقی حس دی گئی ہے۔

    مذہب صرف اس جگہ رہنمائی کرتا ہے جہاں کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ وہاں وہ راہ اعتدال بتائے گا۔

    ہر دور ہر سماج کے تقاضے مختلف ہوتے ہیں وہاں فیصلہ انسانوں کو خود کرنا ہے۔ یہ ان کی آزمایش ہے جس کے لیے انھیں خدا کی عدالت میں جواب دہ ہونا ہے۔

    مرد و عورت کے درمیان کیا کیا طے ہوگا یہ مرد و عورت اپس میں طے کریں گے۔

    یہ وہ آزادی ہے جو انسان کو اپنے اعمال کا زمہ دار بناتی ہے۔

  • Dr Firasat Khan

    Member May 7, 2024 at 10:19 am

    سلام

    گو کہ میں بحث مزید بڑھانے سے گریزاں تھا مگر آپ کے اپنے کہے پر پھر سوال اٹھتا ہے۔ اگر معاملات مرد و عورت نے ہی طے کرنے ہیں تو پھر عورتوں کے حقوق پر سورت کیوں نازل ہوئی۔ جیسا کہ عرض کیا ہے آپ کی دلیل میں بذات خود سوالات موجود ہیں۔ اور یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ جو کتاب نہ آپ نے لکھی نہ آپ سے پوچھ کر لکھی گئی اگر اس میں سوالات کے جوابات نہیں ہیں یا نامکمل ہیں تو آپ کو یہ بات کہنے میں کیا قباحت ہے؟

    شکریہ

  • Dr. Irfan Shahzad

    Scholar May 7, 2024 at 10:14 pm

    یہ غلط فہمی ہے کہ کوئی سورت عورتوں کے بارے میں ہے۔ ایسی کوئی سورت قرآن میں نہیں۔ سورہ نسا کے نام سے شاید غلط فہمی ہوئی ہے۔ اس سورہ کو پڑھ کر دیکھیے دیگر سورتوں کی طرح وہاں بھی مختلف موضوعات ہیں جن میں عورتوں کے مسائل بھی زیر بحث ہیں۔

    ہر علم اپنے لیے دائرہ مقرر کرتا ہے۔ اس میں کمی یا نقص اسی دائرے میں دیکھا جاتا ہے۔ مثلا فزکس کے دائرے میں حیاتیات کے مسائل تلاش نہیں کیے جاتے۔

    جن معاملات میں ہماری عقل کافی ہے اس میں قرآن مجید رہنمائی نہیں دیتا۔ یہ نقص نہیں اسکیم ہی یہی ہے۔ عقل بھی خدا کی دی ہوئی ہے اور قرآن بھی۔ دونوں سے رہنمائی ان کے دائروں میں وصول کی جائے گی۔

    وہ خوش عقیدہ جو یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید میں ہر مسئلے کا حل موجود ہے اور بد ظن جو یہ دیکھتے ہیں کہ ہر مسئلے کا حل اس میں موجود نہیں ، دونوں ہی قرآن کے سکوپ سے نا واقفیت کا ثبوت دیتے ہیں۔

  • Dr Firasat Khan

    Member May 7, 2024 at 10:25 pm

    حضور اب آپ نے وہی بات کی جس کی نشاندہی کرنے کی اس عاجز نے کوشش کی تھی۔قرآن میں ہر مسئلے کا حل موجود نہیں۔اور کیا یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ “کیا قرآن ایک مکمل ضابطہ حیات ہے؟ امید ہے آپ میرے سوالات پر برا نہیں فرمائیں گے۔ نوازش

  • Dr. Irfan Shahzad

    Scholar May 8, 2024 at 3:13 am

    یہ بات قرآن نے نہیں کہی کہ وہ ضابطہ حیات ہے۔

    یہ مولانا مودودی کا کہنا تھا۔

    آپ جس چیز کو قرآن کا نقص کہہ رہے ہیں وہ اس کا نقص نہیں، بلکہ اس کے داءرہ نہیں ہے۔ یہ بات باور کراءی گءی ہے۔

You must be logged in to reply.
Login | Register