Ask Ghamidi

A Community Driven Discussion Portal
To Ask, Answer, Share And Learn

Forums Forums Sources of Islam Khatam-e-Nabuwat And Ibn Arabi

  • Khatam-e-Nabuwat And Ibn Arabi

    Faisal Haroon updated 3 years, 3 months ago 6 Members · 11 Replies
  • $ohail T@hir

    Moderator August 11, 2020 at 9:45 pm

    Please explain this video content

    https://youtu.be/vaJIAJhrzqg

  • $ohail T@hir

    Moderator August 11, 2020 at 9:46 pm

    ویڈیو کا جواب:

    کچھ دنوں سے غامدی صاحب کے حوالہ سے پروفیسر ڈاکٹر محمد الیاس صاحب کی یہ تنقیدی ویڈیو گردش کر رہی ہے جس میں پروفیسر صاحب کا کہنا ہے کہ غامدی صاحب اپنی ایک ویڈیو میں شیخ اکبر تصوف ابن عربی کے تصورِ نبوت کے حوالے سے آدھی بات بیان فرما کر تلبیس کے مرتکب ہوئے۔ ویسے تو خود ڈاکٹر صاحب نے غامدی صاحب کے احمدیت و تصوف کے تعلق کے حوالے سے طویل لیکچرز کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا نقل کر کے اُن کو احمدیوں کا مبلغ ثابت کرنے کی کوشش کی درحالانکہ غامدی صاحب کے اُن لیکچرز میں تصوف کو احمدی فکر کی بنیاد قرار دیا گیا ہے اور تصوف کو متوازی دین۔

    زیرِ نظر ویڈیو میں پروفیسر صاحب نے شیخ ابن عربی کی پوری عبارت کا جو حرف بہ حرف ترجمہ پیش کیا وہ یہ ہے

    ===========

    ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے جس نبوت کا خاتمہ ہوا یہ تشریع والی نبوت ہے مقام نبوت نہیں۔ کوئی شریعت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کیلئے ناسخ نہیں ہو سکتی یعنی اِسکو ختم نہیں کر سکتی اِس شریعت کو منسوخ نہیں کر سکتی اور اِس حکم میں اِس قانون میں کسی اور حکم اور قانون کا اضافہ بھی نہیں کر سکتی اور یہ ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس قول کا معنی کہ

    ’رسالت اور نبوت ختم ہو چکی ہیں میرے بعد کوئی رسول نہیں میرے بعد کوئی نبی نہیں‘ (یہ حدیث ہے)

    کہ میرے بعد کوئی ایسا نبی نہیں ہو گا جو ایسی شریعت پر ہو جس کی شریعت میری شریعت کے مخالف ہوسکتی ہے اگر وہ ہوگا تو میری شریعت کے تابع ہو گا، کوئی ایسا رسول نہیں ہو گا اللہ کی مخلوق میں سے جو ایسی شریعت لے کر آئے جس کی طرف وہ لوگوں کو بلاتا ہو۔ یہ وہ چیز ہے جو ختم ہو گئی اور اس کا دروازہ ختم کر دیا گیا۔ [یعنی نئی شریعت اور نئے نبوت کے نظام کا خاتمہ کر دیا گیا۔(یہ جملہ پروفیسر صاحب کا اپنا اضافہ ہے ابن عربی کی عبارت میں موجود نہیں)]، نبوت کے مقام کا خاتمہ نہیں ہوا۔ اِس لیے کہ اِس میں کوئی اختلاف نہیں کہ عیسی نبی ہیں اور اللہ کے رسول ہیں اور اِس میں کوئی اختلاف نہیں ہے حضرت عیسی علیہ السلام آخری زمانے میں حاکم کی حیثیت سے نازل ہونگے، عدل کے ساتھ فیصلہ کرنے والے ہونگے۔ ہماری ہی شریعت کے مطابق فیصلہ کریں گے کسی اور شریعت کے مطابق فیصلہ نہیں کرینگے اور نہ ہی اُس شریعت کے مطابق فیصلہ کرینگے جس شریعت کے مطابق وہ بنو اسرائیل میں عبادت کیا کرتے تھے‘‘

    (فتوحات مکیہ از ابن عربی جِلد 3 صفحہ 6)

    ==========

    اِس عبارت کے ترجمہ کے بعد پروفیسر صاحب کا کہنا ہے کہ ابن عربی نے یہ عبارت نزول مسیح کے تناظر میں یہ بتانے کیلئے لکھی کہ حضرت عیسی کا نزول ختم نبوت کے منافی نہیں ہے کیونکہ وہ نبی اور رسول کی حیثیت سے تشریف نہیں لائیں گے کوئی شریعت لے کر نہیں آئیں گے بلکہ آپ ہی کی شریعت کے پیرو بن کر آئیں گے۔

    اتنی بات تو پروفیسر صاحب کی درست ہے کہ ابن عربی کے نزدیک حضرت عیسی اِس حیثیت میں نہیں آئیں گے کہ محمد رسول اللہ کی شریعت منسوخ کریں لیکن کیا وہ صاحب نبوت کی حیثیت سے نازل ہونگے؟ اِس بارے میں شیخ ابن عربی نے آگے چل کر فتوحات مکیہ (دارلکتب العلمیہ، بیروت) کی اِسی جِلد سوم کے 75 صفحہ پر ایک سوال کی وضاحت فرماتے ہوئے لکھا ہے

    ===========

    با السؤال الثالث عشرفإن قلت ومن الذي يستحق خاتم الأولياء كما يستحق محمد صلى الله عليه وسلم خاتم النبوة فلنقل في الجواب الختم ختمان ختم يختم الله به الولاية وختم بختم الله به الولاية المحمدية فأما ختم الولاية على الإطلاق فهو عيسى عليه السلام فهو الولي بالنبوة المطلقة في زمان هذه الأمة وقد حيل بينه وبين نبوة التشريع والرسالة فينزل في آخر الزمان وارثا خاتما لا ولي بعده بنبوة مطلقة كما أن محمدا صلى الله عليه وسلم خاتم النبوة لا نبوة تشريع بعده وإن كان بعده مثل عيسى من أولي العزم من الرسل وخواص الأنبياء ولكن زال حكمه من هذا المقام لحكم الزمان عليه الذي هو لغيره فينزل وليا ذا نبوة مطلقة يشركه فيها الأولياء المحمديون فهو منا وهو سيدنا فكان أول هذا الأمر نبي وهو آدم وآخره نبي وهو عيسى أعني نبوة الاختصاص فيكون له يوم القيامة حشران حشر معنا وحشر مع الرسل وحشر مع الأنبياء وأما ختم الولاية المحمدية فهي لرجل من العرب من أكرمها أصلا ويدا وهو في زماننا اليوم موجود عرفت به سنة خمس وتسعين وخمسمائة ورأيت العلامة التي له قد أخفاها الحق فيه عن عيون عباده وكشفها لي بمدينة فاس حتى رأيت خاتم الولاية منه وهو خاتم النبوة المطلقة لا يعلمها كثير من الناس وقد ابتلاه الله بأهل الإنكار عليه فيما يتحقق به من الحق في سره من العلم به وكما أن الله ختم بمحمد صلى الله عليه وسلم نبوة الشرائع كذلك ختم الله بالختم المحمدي الولاية التي تحصل من الورث المحمدي لا التي تحصل من سائر الأنبياء فإن من الأولياء من يرث إبراهيم وموسى وعيسى فهؤلاء يوجدون بعد هذا الختم المحمدي وبعده فلا يوجد ولي على قلب محمد صلى الله عليه وسلم هذا معنى خاتم الولاية المحمدية وأما ختم الولاية العامة الذي لا يوجد بعده ولي فهو عيسى عليه السلام

    ترجمہ: ’’تیرہواں سوال یہ ہے کہ اگر آپ یہ پوچھیں کہ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں تو خاتم اولیاء کون ہے؟ تو ہم اس کے جواب میں کہیں گے کہ خاتم ولایت دو ہیں؛ ایک وہ جو ولایت محمدیہ کے خاتم ہوں گے اور دوسرے وہ جو عام ولایت کے خاتم ہوں گے۔ اور دوسرے خاتم اولیاء کہ جن سے مطلق ولایت ختم ہو جائے گی حضرت عیسی علیہ الصلاۃ والسلام ہیں۔ اور وہ ایسے ولی ہیں جو اس امت میں ’’مطلق نبوت‘‘ کے حامل ہیں جبکہ وہ اس کے اور تشریعی نبوت کے مابین حائل ہیں۔ پس آپ علیہ اسلام کا نزول آخری زمانہ میں ہوگا جبکہ آپ خاتم الاولیاء ہونگے اور آپ کے بعد کوئی ایسا ولی نہ ہوگا جو مطلق نبوت کے ساتھ ہو جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں ہے اور آپ کے بعد تشریعی نبوت نہیں ہے۔

    البتہ آپ ﷺ کے بعد حضرت عیسی علیہ السلام جیسے ہیں جو اولوالعزم اور خاص رسولوں میں سے ہیں لیکن ان کے رسول ہونے کا حکم اس امت میں آنے کے وقت میں باقی نہیں رہے گا کیونکہ رسول کا حکم اس وقت میں محمد ﷺ کیلئے ہے ’’لہذا وہ ایک ایسے ولی کے طور اس امت میں تشریف لائیں گے جو مطلق نبوت کے حامل ہونگے اور ان کی اس مطلق نبوت میں اس امت کے اولیاء بھی شریک ہونگے‘‘۔ تو حضرت عیسی علیہ السلام ہم میں سے ہیں ہمارے سردار ہیں۔ تو اس دنیا کی ابتدا بھی نبی سے ہوئی یعنی آدم علیہ السلام سے اور اختتام بھی نبی پر ہوگا یعنی عیسی علیہ السلام پر۔ اور نبوت سے مراد خاص نبوت ہے۔ تو قیامت والے دن ان کا حشر انبیاء و رسل کے ساتھ بھی ہوگا اور اس امت کے ساتھ بھی۔

    اور جہاں تک خاتم اولیاء کی بات ہے تو وہ عرب میں سے ایک شخص ہو گا کہ جو اپنے نسب اور عمل دونوں وجہ سے معزز ہو گا اور وہ خاتم اولیاء ہمارے زمانے میں موجود ہے اور مجھے اس کے بارے 595ء میں معرفت حاصل ہوئی۔ اور میں نے خاتم اولیاء میں اس کی ختم ولایت کی وہ نشانی بھی دیکھی ہے جو حق سبحانہ وتعالی نے اس میں اپنے بندوں سے چھپا رکھی تھی۔ اور یہ سب مجھ پر فاس کے شہر میں کھلا ہے کہ میں نے خاتم اولیاء کو دیکھا ’’اور یہی خاتم اولیاء، خاتم نبوت مطلق بھی ہے‘‘۔ اسے اکثر لوگ نہیں جانتے ہیں اور اللہ عزوجل نے اس خاتم اولیاء کو اس آزمائش میں ڈالا ہے کہ لوگ اس کا انکار کر رہے ہیں جبکہ اس کے بارے حق سچ باطنی علم سے ثابت ہوچکا۔ تو جس طرح اللہ عزوجل نے تشریعی نبوت کو محمد ﷺ پر ختم کیا تو اسی طرح ولایت کو بھی اس خاتم اولیاء پر ختم کر دیا لیکن اس ولایت کو جو محمدی وراثت سے جاری ہوتی ہے جبکہ دیگر انبیاء کی وراثت سے جاری ہونے والی ولایت باقی رہے گی اور ابراہیم، موسی اور عیسی سے وراثت پانے والے ولی اس محمدی خاتم الاولیاء کے بعد بھی موجود رہیں گے۔ اور محمدی خاتم الاولیاء کے بعد اب قلب محمدی پر کوئی ولی اس امت میں پیدا نہیں ہوگا اور یہی خاتم ولایت محمدیہ کا معنی ہے جبکہ عمومی معنی میں ختم ولایت حضرت عیسی علیہ السلام پر ہوگی”

    ============

    اب وہ خاتم الاولیاء کون ہے جو کہ “خاتم مطلق نبوت” بھی ہے، ابن عربی لکھتے ہیں

    “فكنت بمكة سنة تسع وتسعين وخمسمائة أرى فيما يرى النائم الكعبة مبنية بلبن فضة وذهب لبنة فضة ولبنة ذهب وقد كملت بالنباء وما بقي فيها شيء وأنا أنظر إليها وإلى حسنها فالتفت إلى الوجه الذي بين الركن اليماني والشامي هو إلى الركن الشامي أقرب فوجدت موضع لبنتين لبنة فضة ولبنة ذهب ينقص من الحائط في الصفين في الصف الأعلى ينقص لبنة ذهب وفي الصف الذي يليه ينقص لبنة فضة فرأيت نفسي قد انطبعت في موضع تلك اللبنتين فكنت أنا عين تينك اللبنتين وكمل الحائط ولم يبق في الكعبة شيء ينقص وأنا واقف أنظر واعلم أني واقف واعلم أني عين تينك اللبنتين لا أشك في ذلك وأنهما عين ذاتي واستيقظت فشكرت الله تعالى وقلت متأوّلا أني في الأتباع في صنفي كرسول الله صلى الله عليه وسلم في الأنبياء عليهم السلام وع-سى أن أكون ممن ختم الله الولاية بي وما ذلك على الله بعزيز” [فتوحات مكية: 481-480]

    ترجمہ: “میں 599ء میں مکہ میں تھا کہ میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ خانہ کعبہ کی ایک اینٹ سونے کی اور ایک چاندی کی، اور وہ اس طرح بنا ہوا ہے۔ خانہ کعبہ کی عمارت مکمل ہے، اس میں کچھ کمی نہیں ہے۔ اور میں کبھی اسے اور کبھی اس کے حسن عمارت کو دیکھ رہا ہوں کہ اچانک میری نظر رکن یمانی اور رکن شامی کے مابین طرف پر پڑتی ہے۔ اور رکن شامی کے قریب مجھے خانہ کعبہ کی دیوار میں دو لائنوں میں دو اینٹوں کی جگہ خالی نظر آئی؛ ایک سونے کی اینٹ اور دوسری چاندی کی اینٹ کی جگہ۔ دیوار میں اوپر والی لائن میں سونے کی اینٹ کی جگہ خالی تھی جبکہ نچلی لائن میں چاندی کی اینٹ کی جگہ خالی تھی۔ تو میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ میں نے ان دونوں اینٹوں کی جگہ پُر کر دی ہے جیسے کہ میں وہ دونوں اینٹیں ہوں۔ اور اس طرح خانہ کعبہ کی دیوار مکمل ہو گئی اور خانہ کعبہ کی عمارت میں کوئی کمی نہ رہ گئی۔ اور میں کھڑا یہ سب منظر دیکھ رہا ہوں۔ اچھی طرح سمجھ لو کہ میں کھڑا ہوں اور میں یہ جانتا ہوں کہ میں ہی وہ دونوں اینٹیں ہوں اور مجھے اس میں ذرہ بھی شک نہیں ہے۔ اور وہ دونوں اینٹیں میں ہی ہوں۔ اس کے بعد میں بیدار ہوا تو میں نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ اور میں نے اس خواب کی یہ تعبیر کی کہ میں دو طرح سے متبع ہوں؛ ایک تو ایسے جیسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نبیوں میں ہیں اور دوسرا مجھے یہ امید ہے کہ مجھ پر ولایت ختم ہو چکی ہے اور یہ اللہ کے لیے مشکل نہیں۔”

    فتوحات میں ہی ایک اور جگہ صراحت سے دعوی کیا ہے کہ وہ خود ہی خاتم الاولیا ہیں اور اِس میں انہیں کسی قسم کا شک نہیں (دیکھئے فتوحات مکیہ جِلد 1 صفحہ 370)

    جبکہ فصوص الحکم صفحہ 63 میں مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

    “خاتم اولیاء کیلئے بھی ضروری ہے کہ وہ ویسا ہی ایک خواب دیکھے جیسے کہ رسول اللہ نے دیکھا ہے لیکن وہ یہ دیکھے کہ نبوت کی دیوار میں دو اینٹوں کی جگہ خالی ہے ایک سونے کی اینٹ اور دوسری چاندی کی اینٹ۔ تو یہ دونوں اینٹیں یعنی سونے اور چاندی کی ایسی اینٹیں ہیں کہ اگر نہ ہوں تو نبوت کی دیوار نامکمل ہے اور اگر ہوں تو نبوت کی دیوار مکمل ہے۔ تو اب خاتم اولیاء کیلئے ضروری ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ وہ خود ان اینٹوں کی جگہ لے رہا ہے۔ تو خاتم اولیاء ہی یہ دو اینٹیں ہیں اور اسی سے نبوت کی یہ دیوار مکمل ہوگی۔”

    خلاصہ کلام یہ ہے کہ ابن عربی کے نزدیک:

    1۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے جس نبوت کا خاتمہ ہوا یہ تشریع والی نبوت ہے مقام نبوت نہیں۔

    2۔ نبوت کے خاتمہ کا مطلب یہ ہے کہ کوئی ایسا نبی و رسول نہیں آئے گا جو نئی شریعت لے کر آئے کیونکہ ایسا ختم نبوت کے منافی ٹھرے گا

    3-حضرت عیسی علیہ السلام جب نازل ہونگے تو محمد رسول اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلہ کریں گے

    4أ ایک ولایت محمدیہ ہے جبکہ دوسری عام ولایت ہے۔

    5۔حضرت عیسی علیہ الصلاۃ والسلام خاتم اولیاء ہیں جن سے مطلق و عمومی ولایت ختم ہو جائے گی،

    6-حضرت عیسی امت میں ’’مطلق نبوت‘‘ کے حامل ہیں اور آپ کے بعد کوئی ایسا ولی نہ ہوگا جو مطلق نبوت کے ساتھ ہو۔

    7 ولایت محمدیہ کا خاتمہ وہ (ابن عربی) خود کریں گے کیونکہ اِس حیثیت میں وہ خود خاتم االاولیا ہیں۔

    8- وہ (ابن عربی) خود بھی خاتم نبوت مطلق ہیں۔

    9-جس طرح اللہ عزوجل نے تشریعی نبوت کو محمد ﷺ پر ختم کیا تو اسی طرح ولایت کو اور نبوت مطلق کو بھی اس خاتم اولیاء (یعنی ابن عربی) پر ختم کر دیا لیکن صرف اس ولایت کو جو محمدی وراثت سے جاری ہوتی ہے جبکہ دیگر انبیاء کی وراثت سے جاری ہونے والی ولایت باقی رہے گی اور ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ سے وراثت پانے والے ولی اس محمدی خاتم الاولیاء کے بعد بھی موجود رہیں گے۔

    10-وہ (ابن عربی) خود خاتم الاولیاء کی حیثیت سے اُن دو اینٹوں کے برابر ہیں جن کے بغیر نبوت کی دیوار مکمل نہ ہوگی۔

    اِن تمام تفصیلات سے اتنی بات واضح ہے کہ فتوحات مکیہ کی جِلد 3 کے صفحہ چھ پر جو ابن عربی نے خاتم النبیین کا مفہوم واضح کیا وہ بس اتنا ہے کہ حضرت عیسی جب آئیں گے تو محمد رسول اللہ ﷺ کی شریعت کے مطابق فیصلہ کریں گے جہاں تک خاتم الاولیا و ’خاتم مطلق نبوت‘ (غیرتشریعی نبوت) کا تعلق ہے تو وہ سب محمد رسول اللہ ﷺ کے زمانے کے بعد ہوگا جس کا ذکر ابن عربی آگے چل کر کرتے ہیں۔ اِس سے ابن عربی کے تصور نبوت پر وہ اصولی اعتراض اپنی جگہ قائم رہتا ہے جس کو غامدی صاحب نے بیان فرمایا۔

    یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ ابن عربی کے تصور نبوت پر غامدی صاحب یا اہل حدیث کی جانب سے پہلی بار تنقید نہیں ہو رہی۔ اِن سے پہلے حنفی و شافعی و مالکی و جنبلی فقہاء کا بھی سخت نقد موجود ہے۔ جنہوں نے انہی نظریات کی وجہ سے ابن عربی کی تکفیر و تضلیل کی ہے۔

    ویسے تو اِس موضوع پر کئی کتب موجود ہیں لیکن اگر کسی نے خلاصہ دیکھنا ہو تو حافظ ڈاکٹر محمد زبیر صاحب (جو کہ غامدی صاحب کی فکر کے ناقدین میں شمار ہوتے ہیں) کے کتابچہ “ابن عربی کا تصور نبوت” میں خلاصہ دیکھ سکتے ہیں۔ کتابچہ میں حافظ زبیر صاحب نے اُن جلیل القدر فقہاء کے اقوال جمع کر دیے ہیں جو ابن عربی کی تکفیر و تضلیل کرتے ہیں۔ اِس کے ساتھ ساتھ ابن عربی کے تصورِ نبوت کی حقیقت بھی واضح کر دی ہے۔

    تحریر: فاروق الہی

  • $ohail T@hir

    Moderator August 11, 2020 at 9:47 pm

    See this thread for details

    Discussion 4851

  • $ohail T@hir

    Moderator August 12, 2020 at 12:52 am
  • Umer

    Moderator August 12, 2020 at 1:32 pm

    For comments of Ghamidi Sahab on the statement of Ibn-e-Arabi in the context of Jesus / Esa (AS), please refer to the video below from 11:43 to 13:42 and for further related discussion, from 40:06 to 45:09

    • Faizan Ahmed

      Member August 18, 2020 at 1:39 am

      Engineer sb should have seen this video before speaking on this matter.

  • Rafia Khawaja

    Member August 21, 2020 at 9:30 am

    Anything in English please?

  • $ohail T@hir

    Moderator August 26, 2020 at 6:51 am

    ابن عربی کا تصور نبوت!

    غامدی صاحب کے پیش کردہ “اقتباس” پر ہونے والی تنقیدات،

    ایک علمی مطالعہ!

  • $ohail T@hir

    Moderator September 1, 2020 at 8:40 pm
  • Muhammad Wasif

    Member January 19, 2021 at 8:09 am

    I want a little clarification. Ibn ul Arabi sb talked about Khatm e nabuwat in context of Hazrat Essa but he was adamant to believe that gair shariye nabuwat exists and people can have contact with God. Is it right?

    • Faisal Haroon

      Moderator January 19, 2021 at 10:42 am

      If you have gone through all the content in this post then what more clarification is required on your part? Quran and hadith are clear that the doors of all kinds of nabuwat have been completely closed.

You must be logged in to reply.
Login | Register